بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں سکیورٹی فورسز

بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں سکیورٹی فورسز

بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں سکیورٹی فورسز کے خلاف چار روز سے احتجاج کیوں جاری ہے؟

بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے علاقے خوست میں سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کا اپنے ایک کارکن کی لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج چوتھے دن میں داخل ہو گیا ہے۔

پارٹی کی مقامی قیادت اور کارکنوں نے اپنے ساتھی خالق داد کی لاش کو اس وقت تک دفن کرنے سے انکار کیا ہے جب تک سکیورٹی فورسز کے ان اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جاتا جن پر عوامی نیشنل پارٹی کی مقامی قیادت نے خالق داد کے قتل کا الزام عائد کیا ہے۔

احتجاجی کارکنوں نے بدھ کے روز ضلع ہرنائی میں ہڑتال کی کال بھی دے رکھی ہے۔

بلوچستان کے قصبے خوست میں یہ احتجاج 14 اگست کو اس وقت شروع ہوا تھا جب 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب مقامی آبادی پر فائرنگ سے اس علاقے کے تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔

مقامی افراد نے عام آبادی پر ہونے والی اس فائرنگ کا الزام علاقے میں تعینات سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر عائد کیا تھا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے کیمپ سے مقامی آبادی پر فائرنگ کے نتیجے پر تین افراد کے زخمی ہونے کے خلاف احتجاج کے لیے لوگ جمع ہوئے تھے۔ اس احتجاج کے لیے جمع ہونے والے مجمعے پر بھی مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے کیمپ سے فائرنگ کی گئی جس میں ایک شخص ہلاک جبکہ چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔

عوامی نیشنل پارٹی ہرنائی کے ضلعی صدر ولی داد نے مظاہرین پر فائرنگ کا الزام سکیورٹی فورسز پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’نہتے لوگوں پر فائرنگ قریب ہی واقع سکیورٹی فورسز کے کیمپ سے کی گئی جبکہ اس سے قبل 13اور 14اگست کی درمیانی شب بھی مقامی آبادی پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں تین بے گناہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔‘

ہرنائی میں فائرنگ کے اس واقعے کی بازگشت 15 اگست کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی سنائی دی اور بعض اراکین کی جانب سے حکومت سے اس سلسلے میں عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔

فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب ہونے والے فائرنگ کے حوالے سے جو بیان جاری کیا گیا اس کے مطابق ہرنائی میں خوست کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ پر حملے کو ناکام بنانے کے بعد ’دہشت گردوں‘ کا پیچھا کیا جس میں ایک جھڑپ میں سکیورٹی فورسز کے دو اہلکار ہلاک ہو گئے جبکہ حملہ آوروں کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔

اس واقعے کے بارے میں بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ میر ضیا اللہ لانگو سے حکومتی مؤقف جاننے کے لیے متتعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا تاہم کمشنر سبی ڈویژن بالاچ عزیز کا کہنا ہے کہ ہرنائی میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہیں اور تحقیقات مکمل ہونے سے قبل کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔

سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر اہلکار نے مقامی آبادیوں پر فائرنگ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے سکیورٹی فورسز کے خلاف بے بنیاد الزام عائد کرتے رہتے ہیں۔

ہرنائی میں احتجاج

خوست میں احتجاج کے لیے لوگ کیوں جمع ہوئے؟

عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر ولی داد کا کہنا ہے کہ 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے زیارت کچھ سے لغڑی ندی تک مختلف دیہات پر فائرنگ کی گئی جس میں ایک بچے سمیت تین افراد زخمی ہوئے تھے۔

انھوں نے سکیورٹی فورسز پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’زیارت کچھ سے لغڑی ندی تک بے گناہ لوگوں کے گھروں پر فائرنگ کے واقعے کے خلاف اتوار کو لوگ خوست کے بازار میں جمع ہوئے تھے تاکہ وہ اپنا پر امن احتجاج ریکارڈ کراسکیں لیکن ان پر دوبارہ سکیورٹی فورسز کے کیمپ سے فائرنگ کی گئی جس میں عوامی نیشنل پارٹی کا کارکن خالق داد ہلاک اور چھ لوگ زخمی ہوئے۔‘

انھوں نے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر مقامی افراد کی فائرنگ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے نہتے اور بے گناہ افراد کے زخمی ہونے کے واقعے کو چھپانے کے لیے مقامی آبادی پر بے بنیاد الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

ہرنائی میں انتظامیہ کے ایک سینئیر اہلکار سے جب رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ مجرموں کو پناہ نہ دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب لوگ مجرموں اور دہشت گردوں کو پناہ دیں گے اور وہ سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کریں گے تو فورسز اپنی دفاع میں کارروائی بھی کریں گی اور حملہ آوروں کے پیچھے بھی جائیں گی۔‘

ہرنائی

فائرنگ کی وائرل ویڈیو میں کیا ہے؟

خوست میں مقامی افراد کے احتجاج پر سکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ کے واقعے کے حوالے سے چند ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں ہیں۔

ان میں سے ایک ویڈیو میں شدید فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فائرنگ بھاری اسلحے سے کی جا رہی ہے۔

ویڈیو میں بعض لوگ پشتو میں یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ ’اس طرف نہیں جاﺅ۔‘

اس ویڈیو میں بعض لوگ زخمیوں کو اٹھائے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں جس میں گہرے نیلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص خون میں لت پت نظر آتا ہے۔

ویڈیو میں ایک شخص اس کی ہلاکت کے متعلق بتاتا ہے تو دوسرا شخص اس کی شناخت خالق داد کے نام سے کرتا ہے۔

خالق داد
سکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والی اے این پی کے مقامی کارکن خالق داد

مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟

مظاہرین کے چار بڑے مطالبات ہیں۔ ان میں پہلا مطالبہ مبینہ فائرنگ کے واقعے میں ملوث سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف مقدمے کا اندراج ہے۔

مظاہرین کا دوسرا مطالبہ سکیورٹی فورسز کی مقامی آبادی اور احتجاج کرنے والے افراد پر مبینہ فائرنگ کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل انکوائری کا ہے۔

تیسرا مطالبہ ضلع ہرنائی میں تمام اختیارات سویلین انتظامیہ کے حوالے کرنے کا جبکہ چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ آبادیوں کے اندر قائم سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ کو ہٹایا جائے۔

ولی داد کا کہنا تھا کہ جب تک یہ مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے اس وقت ان کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

انھوں نے بتایا کہ اگر خوست میں ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو مظاہرین لاش کے ہمراہ کوئٹہ کی جانب مارچ کریں گے اور مطالبات تسلیم ہونے تک وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔

عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مابت کاکاکے مطابق خوست میں فائرنگ کے واقعے کے خلاف خوست سمیت صوبے کے دیگر شہروں کوئٹہ، چمن، قلعہ عبداللہ، لورالائی ، مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔

ہرنائی

بلوچستان اسمبلی میں بھی ہرنائی واقعے کی بازگشت

بلوچستان اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں بھی اس واقعے کی باز گشت اس وقت سنائی دی جب عوامی نیشنل پا رٹی کے پارلیمانی رہنما اصغر خان اچکزئی کی جانب سے اس سلسلے میں تحریک التوا پیش کی گئی۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’خوست میں لوگوں پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں جس کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ لوگ پرامن احتجاج کر رہے تھے۔‘

ہرنائی کہاں واقع ہے؟

بلوچستان کا ضلع ہرنائی زیادہ تر سنگلاخ پہاڑی علاقوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ یہ ضلع زیارت سے متصل ہے اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے شمال مشرق میں اندازاً 180کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ہرنائی کوئلے کے ذخائر اور اپنے مخصوص موسم کی وجہ سے سبزیوں کے لیے زیادہ مشہور ہے۔

اگرچہ یہ ضلع زیارت کے ساتھ متصل ہے لیکن اس کا موسم زیارت جیسا ٹھنڈا نہیں۔ اس ضلع میں زردالو سمیت متعدد پکنک پوائنٹس ہیں اس لیے کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد پکنک منانے کے لیے ہرنائی کا بھی رخ کرتی ہے۔

اگرچہ ہرنائی کی زیادہ آبادی مختلف پشتون قبائل پر مشتمل ہے لیکن اس کے مختلف علاقوں میں بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی آباد ہیں۔

ہرنائی کے متعدد علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کے علاوہ بد امنی کے دیگر واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

ہرنائی سے سبی تک ٹرین سروس بھی تھی لیکن سنہ 2000 کے بعد عسکریت پسندوں نے ریلوے لائن کے بعض پلوں کو اڑا دیا جس کے باعث انگریزوں کے دور سے جاری یہ ٹرین سروس بند ہو گئی۔

اگرچہ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کی تیسری حکومت کے دور میں پلوں کی تعمیر کے حوالے سے اہم پیشرفت ہوئی لیکن ٹرین سروس تاحال بحال نہیں ہو سکی۔

ہرنائی کے بعض علاقوں کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے زیادہ متاثرہ ہیں اس لیے کچھ عرصہ قبل یہاں کے بعض علاقوں میں فوج کی بھی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی۔

ہرنائی میں سکیورٹی فورسز پر حملوں اور بدامنی کے بعض دیگر واقعات کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن قبول کرتی رہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *