بلوچستان میں طوفانی بارش سے تباہ کاریاں

بلوچستان میں طوفانی بارش سے تباہ کاریاں

بلوچستان میں طوفانی بارش سے تباہ کاریاں، مختلف علاقوں میں اب بھی متاثرین کھلے آسمان تلے

طوفانی بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ہم حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ سیلاب کے باعث گھروں کے گرنے کے بعد ہمیں جو خیمے فراہم کیے گئے تھے وہ طوفانی بارشوں سے اکھڑ گئے۔‘

بلوچستان کے علاقے گریشہ میں گواراست سے تعلق رکھنے والی بی بی ریحانہ کے گاﺅں کے تمام گھر 28 جولائی کو سیلاب کی نذر ہو گئے۔

فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ بے گھر ہونے کے بعد طوفانی بارشوں کے نئے سلسلے نے ان کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔

اس علاقے کے ایک اور رہائشی نذیر احمد نے بتایا کہ ان کا گاﺅں گوادر اور سوراب کے درمیان سی پیک روٹ پر بنے ایک پل کی وجہ سے سیلابی ریلے کی زد میں آ گیا لیکن سرکاری حکام نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ غیر معمولی بارشوں سے پورے بلوچستان میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے۔

دوسری جانب ضلع لسبیلہ میں ہیلی کاپٹر حادثے اور اس میں فوجی افسروں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ریلیف کی فراہمی کا سلسلہ بند ہے تاہم حکام کے مطابق اس کی وجہ رابطہ سڑکوں کی بحالی ہے۔

لوگ کس قسم کی مشکلات سے دوچار ہیں؟

گواراست گریشہ کا حصہ ہے اور یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں واقع ہے۔

ضلع خضدار کے بعض دیگر علاقوں کی طرح گریشہ کے بعض علاقوں میں بھی طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔

گریشہ میں گواراست کے گاﺅں کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جس کے مکینوں کے مطابق پورے گاﺅں میں کوئی گھر سلامت نہیں رہا۔

بلوچستان

گواراست سے نذیر احمد نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ان کے گاﺅں میں 250 سے زائد گھر تھے جن میں سے زیادہ تر منہدم ہو گئے یا وہ اتنے زیادہ متاثر ہو گئے ہیں کہ ان میں کوئی بھی گھر اب رہنے کے قابل نہیں ہے۔

اسی گاﺅں سے تعلق رکھنے والی بی بی ریحانہ نے بتایا کہ گھروں کے تباہ ہونے کے بعد وہ کھلے آسمان تلے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ نہ صرف گھر گر گئے ہیں بلکہ کھانے پینے کی اشیا، برتن ،کپڑوں سمیت ہر چیز برباد ہو گئی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ گھروں کے گرنے کے بعد سرکاری حکام نے لوگوں کو ایک ایک یا دو دو خیمے تو دیے لیکن گذشتہ دو تین روز سے طوفانی بارشوں کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا تو ہوا نے ان کو اکھاڑ کر رکھ دیا اور خود ان خیموں کو سنبھالنا اُن کے لیے مشکل ہو گیا۔

علاقہ مکینوں کا کیا کہنا ہے؟

نذیر احمد نے بتایا کہ ان کا گاﺅں براہ راست سیلابی ریلے کی زد میں نہیں آیا بلکہ اس کے قریب سے گزرنے والے برساتی نالے میں سیلابی ریلا سی پیک روٹ پر بنے پل کے نیچے سے اس رفتار سے گزر نہیں سکا جس سے وہ آ رہا تھا جس کی وجہ سے پانی واپس ہو گیا اور پورا گاﺅں اور فصلیں اس کے باعث زیر آب آ گئے۔

بلوچستان
مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اُنھوں نے بتایا کہ چونکہ گاﺅں کے سارے گھر کچے تھے اس لیے پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے زیادہ تر مکمل طور پر منہدم ہو گئے اور جو بچ گئے وہ اب کسی طرح بھی رہنے کے قابل نہیں ہیں۔

نذیر احمد کے مطابق اس پل پر کام چند ماہ پہلے شروع کیا گیا تھا اور گاﺅں کے لوگوں نے پل سے پانی کے بہاﺅ کے راستوں کو چھوٹا رکھنے پر اعتراض کیا تھا اور متعلقہ حکام کو اس سے بھی آگاہ کیا گیا تھا۔

ان کے بقول اعتراض کے باوجود پل سے پانی کے بہاﺅ کے راستوں کو بڑا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ بے گھر ہو گئے اور وہ اب دن کے وقت شدید گرمی سے ایک مشکل سے دوچار ہیں لیکن جب طوفانی بارش ہوتی ہے تو وہ ایک اذیت ناک صورت سے دوچار ہوتے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ حکام کی جانب سے کم تعداد میں خیمے تو فراہم کیے گئے لیکن ان سے ان کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی کیونکہ یہ ہر فیملی کی تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں بلکہ طوفانی بارش میں ان کو سنبھالنا خود ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔

نذیر نے کہا کہ انہیں تاحال مناسب مقدار میں اشیائے خورد و نوش بھی فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

اگرچہ نذیر احمد نے اپنے گاﺅں کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ روڈ پر بنے پل کو قرار دیا لیکن کمشنر قلات ڈویژن داﺅد خلجی نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی جگہ کسی پل کی پیمائش اور خصوصیات میں تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے لیکن بلوچستان میں مجموعی طور جو تباہی آئی ہے اس کی وجہ معمول سے کئی گنا زیادہ بارشیں ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اس وقت معمول سے 450 فیصد سے زائد بارشیں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے اور ایسے علاقے بھی متاثر ہوئے جہاں کوئی پل وغیرہ تھا ہی نہیں۔

بلوچستان

اُنھوں نے بتایا کہ خضدار اور کراچی کے درمیان آر سی ڈی شاہراہ پر بہت بڑے پل تھے وہ بھی پانی میں بہہ گئے اور ان کے ٹنوں وزنی کنکریٹ نظر نہیں آئے کہ وہ کہاں گئے۔

ہیلی کاپٹروں سے امدادی سامان کی فراہمی کیوں بند ہے؟

لسبیلہ اور جھل مگسی بلوچستان کے دو ایسے اضلاع ہیں جہاں بعض علاقوں کے زمینی رابطے منقطع ہوئے۔

ان علاقوں میں فوری طور پر ہیلی کاپٹر کے بغیر ریسکیو اور ریلیف کی کارروائی ممکن نہیں تھی جس کی وجہ سے یہاں ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا گیا تاہم جب ضلع لسبیلہ کے علاقے ساکران میں فوجی ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا تو اس کے بعد سے ان علاقوں میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ریلیف کی فراہمی کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے۔

اس حادثے میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت پانچ دیگر فوجی افسران اور اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

امدادی کاموں میں مصروف بعض غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ لاکھڑا اور کنراج سمیت بعض دیگر علاقوں میں لوگوں کو ریلیف کی فراہمی کے لیے ہیلی کاپٹروں کی اب بھی ضرورت ہے تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ رابطہ سڑکوں کی بحالی کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہی۔

بلوچستان

بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے امدادی سامان کی فراہمی کو حادثے کی وجہ سے بند نہیں کیا گیا بلکہ اس کی وجہ سڑکوں کا بحال ہو جانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رابطہ سڑکوں کی بحالی کے بعد چونکہ ریلیف کی فراہمی بڑے پیمانے پر ممکن ہو گئی ہے تو اس کے بعد رابطہ سڑکوں کے ذریعے لوگوں کو امداد کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

بلوچستان میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ جون کی وسط میں شروع ہوا تھا۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق 10 اگست تک بارشوں اور سیلاب سے مجموعی طور پر 176 افراد ہلاک ہوئے۔ بارشوں سے 18 ہزار 87 گھروں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ سرکاری املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچنے کے علاوہ دو لاکھ سے زائد ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

مختلف علاقوں میں لوگ جہاں امدادی اشیاء سے مطمئن نہیں وہیں لسبیلہ اور آواران کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے پیٹ کی بیماریوں کے علاوہ ملیریا اور جلدی امراض کی شکایات بھی سامنے آ رہی ہیں۔

تاہم کمشنر قلات ڈویژن داﺅد خلجی نے بتایا کہ شاید بعض علاقوں سے پیٹ یا جلدی امراض کے اکا دکا کیسز رپورٹ ہوتے ہوں گے لیکن کسی علاقے میں ان بیماریوں نے وبائی شکل اختیار نہیں کی۔

اُنھوں نے کہا کہ لسبیلہ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں میڈیکل ٹیمیں موجود ہیں اور وہ لوگوں کو ریلیف فراہم کر رہی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *