بابری مسجد کے انہدام کی برسی متھرا کی عید گاہ

بابری مسجد کے انہدام کی برسی متھرا کی عید گاہ

بابری مسجد کے انہدام کی برسی متھرا کی عید گاہ کے اطراف سخت حفاظتی انتظامات

چھ دسمبر آزاد اور جمہوری انڈیا کی تاریخ میں ایک ایسا دن ہے جس نے بابری مسجد کو ہندو شدت پسندوں کے ایک ہجوم کے ہاتھوں لاکھوں لوگوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی موجود گی میں مسمار ہوتے دیکھا تھا۔

یہ واقعہ چھ دسبمر سنہ 1992 کو پیش آیا تھا لیکن اس واقعے کے 29 سال بعد آج انڈیا کی سب بڑی ریاست اترپردیش کے شہر متھرا میں شاہی عیدگاہ کو اسی قسم کی صورت حال درپیش ہے۔

شاہی عیدگاہ میں سخت گیر ہندو تنظیموں کی جانب سے ہندوؤں کے دیوتا کرشن بھگوان کی مورتی نصب کرنے اور اس پر ‘جل ابھیشیک’ یعنی دریائے گنگا کے مقدس پانی کے چھڑکاؤ کے اعلان کے بعد پورا علاقہ چھاؤنی میں تبدیل ہو گیا ہے۔

متھرا سے مقامی صحافی سریش سینی نے ہمارے نامہ نگار شکیل اختر کو بتایا کہ ہندو مہا سبھا، کرنی سینا، کرشن جنم بھومی نرمان نیاس اور کرشن جنم بھومی آندولن اور بعض دیگر ہندو تنظیموں نے بابری مسجد کے انہدام کی برسی کے موقع پر چھ دسمبر کو متھرا کی شاہی عید گاہ میں ہندو دیوتا کرشن بھگوان کی مورتی نصب کرنے کی کال دی تھی۔

سریش سینی نے خبر دی ہے کہ سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان عید کے ساتھ ہی واقع شری کرشن جنم بھومی مندر کے بڑے داخلی دروازے کے سامنے چند لوگوں نے جے شری رام کے نعرے لگائے اور اشتعال انگیز بیانات دیے۔ پولیس نے انھیں فوراً حراست میں لے لیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

پورے شہر میں دفعہ 144 لگا دی گئی ہے۔

متھرا کی کرشن جنم ستھلی اور شاہی عیدگاہ
متھرا کی کرشن جنم ستھلی اور شاہی عیدگاہ

کیا متھرا کا معاملہ ایودھیا والی صورتحال تو نہیں اختیار کر لے گا؟

میں نے یہ سوال بابری مسجد پر ایک زمانے سے گہری نظر رکھنے والے اترپردیش کے سینیئر صحافی رام دت ترپاٹھی سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ فی الحال تو ایسا نہیں لگتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ درست ہے کہ سنگھ پریوار (بی جے پی اور آر ایس ایس سمیت بہت سارے ہندو گروپ کو اس نام سے معنون کیا جاتا ہے) کے ایجنڈے پر بابری مسجد کے ساتھ کاشی اور متھرا بھی رہا ہے لیکن جو گروپ ابھی وہاں سرگرم عمل ہے وہ سنگھ پریوار کے آفیشل دھڑے کا حصہ نہیں ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ جس طرح بابری مسجد کے تنازعے میں اور اس کو مسمار کرنے کے معاملے میں سنگھ پریوار کے آفیشل گروپ کے علاوہ دیگر گروپ بھی شامل تھے اس کے برخلاف متھرا میں ابھی صرف دیگر گروپ شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ان گروپوں کو ترغیب بابری مسجد کے واقعے سے ہی ملی ہے۔ یہ صرف ایک مندر نہیں ہے بلکہ مندروں کی بحالی کا اس قسم کا پروگرام ان گروہوں کو سیاسی شناخت عطا کرتا ہے اور ہندو کے افتخار کی علامت بن جاتا ہے۔‘

لیکن رام دت ترپاٹھی کے مطابق بی جے پی یا سنگھ پریوار کی توجہ ابھی ایودھیا میں مندر کی تعمیر اور کاشی وشوناتھ کوریڈور پر ہے اور دوسرے معاملے پس پشت ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’سنگھ پریوار کے دل و دماغ میں متھرا کے علاوہ اس قسم کا اور بھی معاملہ رہا ہے۔ درگا واہنی اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کو یہی سبق پڑھایا گیا ہے لیکن اسے سیاسی ایجنڈے پر کب لانا ہے یہ ابھی طے نہیں ہوا ہے۔‘

متھرا کی کرشن جنم ستھلی اور شاہی عیدگاہ
متھرا کی کرشن جنم ستھلی اور شاہی عیدگاہ

اس کے برخلاف ایودھیا سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی مدھوکر اپادھیائے کا کہنا ہے کہ جس طرح سے اترپردیش کے نائب وزیر اعلی اور بی جے پی کے رہنما کیشو پرساد موریہ نے چند دن قبل کہا تھا کہ ‘ایودھیا اور کاشی بھویہ مندر نرمان جاری ہے، متھرا کی تیاری ہے’ (یعنی ایودھیا اور کاشی عظیم مندروں کی تعمیر کا کام جاری ہے اور اسی طرح سے متھرا میں بھی مندر کی تعمیر ہوگی) اس سے یہ لگتا ہے کہ ان کا ایجنڈا ’سیاسی‘ ہے۔

‘ہر چند کہ انھوں نے اپنی بات واپس لے لی ہے لیکن وہ ان کی تکنیکی ریٹریٹ (یعنی بیان سے پیچھ ہٹنا) ہے۔ ان کی باتوں کو مان لینا بھول ہوگی۔ وہ فی الحال خاموش ہو جائیں گے لیکن وہ بہت دنوں تک اس مسئلے سے دور نہیں رہیں گے۔’

مدھوکر اپادھیائے نے مزید کہا: ‘وہ لاکھ کہتے رہیں کہ یہ سیاسی نہیں ہے، کرشن کا نام لینا سیاسی نہیں ہے لیکن ان کی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘

’اترپردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان کی حکومت میں کام تو یو پی میں کچھ ہوا نہیں، یہ کیسے جیتیں گے۔۔۔ اور جس موقعے پر یہ چیزیں رونما ہو رہی ہیں اور جس قسم کے بیان آ رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ یہ پورے طور پر سیاسی ہے۔ لیکن ابھی نہیں لگتا کہ ایودھیا جیسا حال متھرا میں ہوگا۔’

رام دت ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ اسی طرح تاریخ میں بہت سارے واقعات رونما ہوئے لیکن وہ اس زمانے میں ہوئے جب بادشاہ کا حکم ہی قانون ہوتا تھا۔ ’لیکن اب ایک جمہوری نظام ہے اور قانون کی بالادستی ہے۔ ایسے میں کسی کے ساتھ اگر ناانصافی بھی ہوئی ہے تو اسے ڈائریکٹ ایکشن کی نہ ضرورت ہے اور نہ اسے اجازت دی جائے گی۔’

بائیں سے ایودھیا، متھرا اور کاشی کے متنازع مقامات
بائیں سے ایودھیا، متھرا اور کاشی کے متنازع مقامات

ان تنازعات کے پس پشت سیاسی مفادات تو نہیں؟

انڈیا کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے مصنف اور تجزیہ نگار اے جی نورانی نے گذشتہ سال شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ‘بی جے پی کی افسردگی کو دور کرنے اور اسے ایک امید افزا راستہ دکھانے کے لیے وی ایچ پی (اس سے آر ایس ایس سمجھیں) کی پہلی دھرم سنسد (مذہبی اجلاس) نے سنہ 1984 میں ایودھیا میں رام جنم بھومی کی ‘آزادی’ کے لیے ایک قرارداد منظور کی تھی۔ اس نے افراد، خاندانوں اور سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک 18 نکاتی ’آچار سمہیتا’ یعنی ضابطہ مقاصد اور ضابطہ اخلاق بھی تیار کیا تھا۔

‘اس کا بنیادی مقصد ‘ہندو سماج کی ترقی’ کے لیے جدید دور سے متعلقہ ‘دھرم’ کی ترتیب تجویز کرنا تھا۔ اس میں آر ایس ایس کا جدیدیت کا تصور، مذہب پر عمل اور (ہندو) برادریوں کے اتحاد کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ مذہب کے ذریعے سیاسی تحریک۔‘

‘آبجیکٹ نمبر 7’ کے تحت ‘مٹھوں، مندروں کو فروغ دینے کی بات۔۔۔ (کی گئی)۔ ‘آبجیکٹ 12’ میں ‘ریاست کو ہندو مفادات کے تحفظ پر مجبور کرنے’ کی بات کہی گئی۔ نمبر 18 کہتا ہے ‘سینیما فلموں کو ہندو دھرم، ہندو ثقافت، ہندو دیوی دیوتاؤں اور ہندو طرز زندگی کی قدروں کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔’ جبکہ اس سے پہلے اعتراض نمبر 11 میں لکھا ہے: ‘شری رام اور سری کرشن جنم استھان، کاشی وشوناتھ مندر اور دیگر تمام تاریخی مندروں کو ہندوؤں کو واپس کیا جانا چاہیے۔’

اے جی نورانی نے مزید کہا کہ ’اس دستاویز کے جاری کیے جانے کا وقت، اس کا سیاق و سباق اور اس کا لہجہ سب یہ واضح کرتا ہے کہ یہ سیاسی موبلائیزشن کے لیے ہے۔‘

سکیورٹی
متھرا میں سکیورٹی فورسز بڑی تعداد میں تعینات ہیں

موجودہ صورت حال

‏شاہی عید گاہ کو جانے والے سبھی راستوں پر پولیس چوکس ہے۔ پولیس پورے علاقے پر ڈرون سے بھی نظر رکھ رہی ہے۔ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں 143 مقامات پر پولیس نے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اہم مقامات پر فسادات سے نمٹنے کے لیے خصوصی طور پر تربیت یافتہ دستے اور سینٹر ریزرو فورس کے جوان بھی سیکنڑوں کی تعداد میں تعینات کیے گئے ہیں۔

پولیس کے اعلیٰ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ صورتحال پوری طرح پر امن ہے اور ابھی تک کسی ناخوشگورار واقع کی خبر نہیں ہے۔

مقامی پولیس سوشل میڈیا پر بھی خاص نظر رکھ رہی ہے۔ متھرا سینیئر سپرینٹنڈنٹ آف پولیس گورو گروور نے بتایا ہے کہ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز اور نفرت انگیز بیانات پوسٹ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

انھوں نے بتایا کہ اشتعال انگیز بیانات پوسٹ کرنے کے سلسلے میں ابھی تک چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

شاہی عیدگاہ
شاہی عیدگاہ کو مغل بادشاہ اورنگزیب نے تعمیر کروایا تھا

متھرا عیدگاہ

متھرا کی عیدگاہ مغل بادشاہ اورنگزیب نے تعمیر کرائی تھی۔ یہ شہر کے ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کی گئی تھی۔ عید گاہ کی دیوار سے متصل بھگوان کرشن کا بہت بڑا مندر ہے۔

ایودھیا میں رام مندر کی تحریک کے دوران ایک بڑا نعرہ یہ بھی تھا کہ ‘ایودھیا تو جھانکی ہے، متھرا کاشی باقی ہے۔’

حکمراں بی جے پی سمیت سخت گیر ہندوؤں کا یہ کہنا ہے کہ مسلم حکمرانوں نے متھرا کی عید گاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجد ہندوؤں کے مندر منہدم کر کے بنائی تھی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مسلمان ان عبادت گاہوں کو ہندوؤں کے حوالے کر دیں۔

مدھوکر اپادھیاے کے مطابق یہ معاملہ آزادی کے بعد کئی بار اٹھایا گیا لیکن رام جنم بھومی بابری مسجد معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ اب انڈیا میں کسی اور مذہبی مقام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جا سکتی۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اپنے تاریخی فیصلے میں سنہ 1991 کے عبادت گاہوں کے ایکٹ (Places of Worship Act) کا حوالہ دیا ہے۔

یہ قانون سنہ 1991 میں نرسمہا راؤ حکومت نے منظور کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ انڈیا میں جو مذہبی مقام 15 اگست 1947 کو تھے جس شکل میں تھے، وہ اسی شکل میں رہیں گے۔ اس معاملے میں ایودھیا تنازعے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔

لیکن یہ قانون بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ سمیت ملک کے تمام مذہبی مقامات پر نافذالعمل ہے۔

اس قانون کے سیکشن (3) میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص کسی مذہبی فرقے یا اس کے کسی حصے کی عبادت گاہ کو اس مذہبی فرقے کے مختلف طبقے یا کسی مختلف مذہبی فرقے یا اس کے کسی حصے کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کرے گا۔

مدھوکر اپادھیائے نے کہا کہ اس ضمن میں ایک بات قابل ذکر ہے کہ مقامی ہندوؤں اور مسلمانوں نے اس معاملے میں ایک سمجھوتہ کیا تھا جس کی کاپی ان کے پاس بھی ہے جس کے تحت جو حصہ جس کے اختیار میں ہے اسے جوں کا توں رہنے دینے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ‘رام جنم بھومی اور بابری مسجد معاملے میں ہم نے اسی قسم کے معاہدے کی بات کی تھی جس سے مسئلہ حل ہو جاتا لیکن بڑے سیاسی مفادات کے تحت کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔’

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *