ایک ہندو اور مسیحی عورت کی دوستی، جو دونوں

ایک ہندو اور مسیحی عورت کی دوستی، جو دونوں

ویلنٹائن ڈے ایک ہندو اور مسیحی عورت کی دوستی، جو دونوں ایک ہی شخص سے پیار کرتی تھیں

یہ بات میں نے سکول میں بتائی۔ میرے خیال سے میں یہ بات ہر جگہ کہتی تھی کہ میرے والد کی دو مائیں تھیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جو پہلے کسی نے نہ سنی ہو۔

بہت سے لوگوں کی دو بیویاں ہوتی ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ کسی نے پہلی بیوی سے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کر لی تو کسی کے گھر بیٹا نہ ہوا تو وہ دوسری عورت بیاہ لایا۔ کوئی شادی کے بعد کسی کے پیار میں گرفتار ہو گیا تو اس نے اس سے شادی کر لی۔ ایسی بہت سی وجوہات ہیں لیکن میرے خاندان کے معاملے میں یہ بات مختلف تھی۔

بات یہ تھی کہ میری دوسری دادی مسیحی تھیں۔ میری یہ دادی کرسمس پر ہمیں کیک بھیجا کرتی تھیں۔ مجھے ان دنوں کی کوئی خاص یاد تو نہیں مگر مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ مجھے اپنی مسیحی دادی پر بہت فخر تھا۔

ایک بار جب میں اپنی نانی کے گھر گئی تو میں نے اپنی نانی کو اتراتے ہوئے بتایا کہ ’میرے والد کی دو مائيں ہیں۔

ان رازوں کو پوشیدہ رکھا جاتا تھا کیونکہ بہت سارے خاندانوں میں مذہبی حد کو پار کرنے والے شخص کو برادری سے خارج بھی کر دیا جاتا تھا لیکن محبت تو محبت ہے۔

خاندان میں بہت سی بیٹیاں اور پوتیاں تھیں جن کی شادی خوشحال اور بڑے گھروں میں ہونا تھی۔ ایسی صورتحال میں لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کے کسی رشتے دار کی کسی مسیحی عورت سے شادی کہیں مشکل نہ کھڑی کر دے۔

میری والدہ کی شادی کے وقت میرے نانا نانی کو یہ بتایا گیا تھا کہ وہ دوسری عورت جو دوسروں سے بالکل مختلف نظر آتی ہے، دراصل میری دادی کی بہن ہے۔ ایک لمبے عرصے تک میری والدہ کو بھی یہ قصہ نہیں معلوم تھا۔ جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھی اور ایک دن میری دادی کسی کام سے باہر چلی گئیں تو میری پھوپھی نے انھیں اس کے بارے میں بتایا تھا۔

آبائی گھر

خاندانی اصول

ملازمت سے سبکدوشی کے بعد میرے دادا کی گرل فرینڈ ہمارے گھر والوں کے ساتھ رہنے لگی۔ پھر ہمارے خاندان میں کچھ مشکلات پیش آنے لگیں۔

سب کو ہدایت کی گئی تھی کہ ہم ان کی اسی طرح عزت کریں جس طرح ہم اپنی دادی، یا دادا کی قانونی بیوی کی کرتے ہیں۔ ہمارے خاندان کا یہ غیر رسمی اصول تھا۔ جب تک ہمارے دادا زندہ رہے ان اصولوں پر سختی سے عمل کیا گیا۔

میرے والد اور ان کے دس سگے بہن بھائی اپنی اصل والدہ کو ’میّا‘ اور دوسری والدہ کو ’مما‘ کے نام سے پکارتے تھے۔

ہم سب ایک بڑے خاندان کا حصہ تھے اور مل جل کر ساتھ رہتے تھے۔ میں نے اس وقت کبھی نہیں سوچا ہے کہ پٹنہ جیسے شہر میں رہنے والے ہندو خاندان کو یہ حقیقت کیوں پوشیدہ رکھنی چاہیے کہ ان کی ایک دادی عیسائی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمارے سوا ہر کوئی اس کے بارے میں جانتا ہے۔

ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کون تھیں۔ کہاں سے آئی تھیں اور انھوں نے ہمارے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

ہم انھیں دادی ماں کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ چھوٹے قد کاٹھ کی عورت تھیں۔ ان کے دانت بڑے تھے۔ عام طور پر ایک بہاری خوبصورتی کے جس پیمانے پر ایک عورت کو تولتا ہے وہ اس میں فٹ نہیں آتی تھیں۔

مجھے امید ہے کہ اب وہ سوچ بدل گئی ہو گی لیکن مجھے یاد ہے کہ لوگ اشاروں میں ان کی بدصورتی کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔

یہ باتیں سن کر ہم بچے ان پر یقین کرتے تھے۔ انھیں غصہ بہت آتا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی تھیں لیکن مجھے اب بھی چشموں کے ساتھ ان کی صورت یاد ہے۔ وہ بہت بڑی عینک لگاتی تھیں۔ میری وہ دادی ہمیشہ سوتی ساڑھیاں پہنتی تھیں اور صاف ستھری رہتی تھیں۔

میری پیدائش سے ٹھیک پہلے وہ اپنے بیٹے، بہو اور نوزائیدہ پوتے کو، جو کہ ہمارا کزن ہے، لے کر کہیں رہنے چلی گئی تھیں۔ وہ ایک نرس تھیں اور کسی دوسرے شہر میں سرکاری گھر میں رہتی تھیں۔

دادا دادی

وہ اکثر ہمارے گھر آتی تھیں۔ جب میرے دادا پہلی بار انھیں گھر لے آئے تو انھوں نے اپنی اہلیہ اور ہماری دادی کو بتایا کہ وہ ایک دوست کی اہلیہ ہیں اور ہمارے ساتھ رہیں گی۔

دادا نے کہا تھا کہ ان کا چھوٹا بیٹا بھی کنبے کے ساتھ رہے گا کیونکہ ان کے پاس کوئی اور جگہ نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ حقیقت میں وہ ان کی گرل فرینڈ ہیں اور وہ بچہ بھی ان کا ہے اور کنبے کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ وہ عیسائی مذہب کی پیروکار ہیں۔

ہماری ایک پھوپھی، جو اب نہیں رہیں، اپنی سوتیلی ماں اور ان کے ’خدمت کے جذبے‘ سے بہت متاثر تھیں۔ وہ خود بھی نئی ماں کی شاگرد بننا چاہتی تھیں۔

ہمارے دادا نے کبھی ان سے شادی نہیں کی تاہم انھیں ہمیشہ دوسری بیوی کہا گيا اور کنبہ ان کا احترام کرتا تھا۔ اب جو بھی ہو، میرے لیے ان دونوں دادیوں کی کہانی بہت اہم ہے۔ پہلے یہ سمجھنے کے لیے کہ میں کس گھرانے سے آتی ہوں اور دوسری محبت کے پیچھے نسائی سیاست کو سمجھنے کے لیے۔

میرے دادا جی کے کمرے میں ہمیشہ دو بستر ہوا کرتے تھے، جو ایک دوسرے کے قریب رکھے تھے۔ یہ بذات خود اس کی گواہی تھے کہ انھوں نے پیار کیا تھا۔ اس کے ساتھ یہ اس بات کا بھی ثبوت تھا کہ کنبے کو کچھ کھونا بھی پڑا تھا۔ جب بھی ہم یہ مسئلہ اٹھاتے تو ہمیں یہ کہہ کر خاموش کر دیا جاتا کہ کنبے کی عزت کا کچھ تو خیال کرو۔

دو دادیوں پر فخر ہے

اب 41 سال کی عمر میں آج میں ان پابندیوں سے آزاد ہوں۔ خاندان میں زیادہ تر لڑکیاں شادی شدہ ہیں تاہم میں تنہا رہتی ہوں اور یقین جانیے کہ اب مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ کوئی کیا سوچتا ہے۔

تو اب میں آپ کو یہ کہانی سناتی ہوں۔ اس میں شرمندگی کی بات نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے فخر ہے کہ میری دو دادیاں تھیں۔

حقیقت کیا ہے پتا نہیں لیکن کم از کم مجھے یہی بتایا گیا تھا۔ میرے دادا ایک دلکش نوجوان تھے۔ وہ پٹنہ کے معین الحق سٹیڈیم میں فٹ بال کھیلتے تھے۔ میرے دادا پولیس افسر تھے۔ ہمارے کنبے کو اس پر بہت فخر ہے کہ ہمارے دادا پٹنہ کے ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جن کے پاس موٹر گاڑی تھی۔

میری دادی بہت گوری چٹی تھیں۔ ان کی خوبصورتی بے داغ تھی۔ وہ افغان سنو کریم استعمال کرتی تھیں۔ ان کے دس بچے ہوئے۔ میری دادی پٹنہ کی رہائشی تھیں۔ ان کے بھائی بھی ان سے بے حد پیار کرتے تھے۔ ان کی ساس بھی انھیں بہت پسند کرتی تھیں۔ وہ میری دادی کو بہت کچھ سکھانا چاہتی تھیں لیکن گھر میں اتنا کام تھا کہ میری دادی کو فرصت نہیں ملتی تھی۔

چنکی سنہا کے اہلخانہ

ایک بار میرے دادا کسی مجرم کی تلاش میں جھارکھنڈ گئے تھے۔ اس وقت جھارکھنڈ علیحدہ ریاست نہیں تھی۔ وہ بہار کا حصہ تھی۔ ان کے گھٹنے میں گولی لگی تھی۔ جس کی وجہ سے میرے دادا کو علاج کے لیے کچھ وقت ہسپتال میں رہنا پڑا۔ اسی دوران ان کی میری دوسری دادی سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک نرس تھیں۔ انھیں میرے دادا کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ انگریزی بولتی تھیں۔ میرے دادا کو ان سے پیار ہو گیا۔ بعد میں وہ انھیں اپنے گھر لے آئے۔

جب ان کی تعیناتی پٹنہ میں ہوئی تو وہ وہاں نرسیں کوارٹرز میں رہتی تھیں لیکن وہ ہمارے گھر آتی تھیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایک دن میری دادی ان کے پاس گئیں اور انھیں اپنے پان کے ڈبے سے ایک پان پیش کیا۔

میری دادی نے ان سے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کو قبول کرنا چاہیے کیونکہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ میرے خیال میں میری دادی ایک حقوق نسواں کی حامی خاتون تھیں۔ گھریلو معاملات کے علاوہ کئی بار کچھ اور چیزوں کی وجہ سے ان کے نازک تعلقات کے ٹوٹنے کا خطرہ رہا ہو گا لیکن وہ دونوں زندگی بھر ایک دوسرے کی دوست رہیں۔

بڑھاپے میں میری دوسری دادی کی آنکھیں چلی گئیں۔ وہ اپنے پوتے یا نوکروں سے کہتیں کہ وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر ہمارے گھر لے چلیں۔

پھر وہ دونوں مل بیٹھ کر شام تک پان چباتیں اور دنیا جہان کی باتیں کرتی تھیں۔ یہ سلسلہ اس وقت ٹوٹ گیا جب میرے چچا نے اس علاقے کو چھوڑ کر شہر میں کہیں اور رہنا شروع کردیا۔ مما کو بھی گھر چھوڑنا پڑا۔

میرا خیال ہے کہ مما کے چلے جانے کے بعد میری دادی کو تنہائی محسوس ہونے لگی۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے وہاں گنگاجلی نامی ایک عورت رہتی تھی۔ آخر کار ان کی یادداشت بھی ختم ہو گئی۔ وہ بڑی مشکل سے چل سکتی تھیں۔ میری پھوپھی نے ان کے بال کاٹ دیے تھے۔ اپنے آخری دنوں میں وہ ایک چھوٹی سی لڑکی کی طرح نظر آنے لگیں۔ کٹے ہوئے بالوں، پتلی دبلی کاٹھی اور موٹی عینک سے ڈھکی آنکھیں۔ ایک دن وہ چل بسیں اور بس قصہ تمام۔

دادا دادی

آخری خواہش

میں اس وقت سکول میں تھی۔ مما ان سے زیادہ دنوں تک زندہ رہی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ اب بھی چرچ جاتی تھیں یا نہیں۔لیکن میں جانتی ہوں کہ ان کی آخری خواہش یہ تھی کہ انھیں جلانے کی بجائے دفن کیا جائے۔

لیکن میں اس مسئلے میں پڑنا نہیں چاہتی۔ میں صرف اپنی دو دادیوں کی وہ تصویر یاد رکھنا چاہتی ہوں جب دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی تھیں۔ کئی بار وہ ایک دوسرے کے ہاتھ بھی تھام لیتیں۔ پان دونوں کو پسند تھا۔ جب ہم بچوں کی سالگرہ آتی تو مما پوریاں تلتیں اور میری اصلی دادی مٹن کا سالن پکاتی تھیں۔

آج ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میری دادی کو قدرے صدمہ تو پہنچا ہو گا کہ ان کے ساتھ فریب ہوا لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ بدلے میں کیا کرنا ہے۔ پہلے تو انھوں نے اس کی مخالفت کی ہو گي لیکن بعد میں دونوں اچھی سہیلیاں بن گئیں۔

مما اور میری اصلی دادی ساتھ مل کر گھر چلاتی تھیں۔ بہرحال ان دونوں نے ایک آدمی کو بانٹنا سیکھ لیا تھا۔ اس کے بعد ان کو جوڑنے والا آدمی بے معنی ہو گیا۔

اس چیز کو یاد کرتے ہوئے میں سوچتی ہوں کہ دونوں خواتین بہت تنہا تھیں۔ شاید میرے دادا بھی تنہائی کا شکار تھے۔ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹی تھی اور وہ باتھ روم میں پھسل کر گرے تھے اور ان کی موت ہو گئی تھی تو لوگوں کا کہنا تھا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا۔

میرے دادا ایسے شخص تھے جنھوں نے اپنی جانب سے پوری کوشش کی۔ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ وہ دونوں خواتین کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ دادا نے دونوں بیویوں کے لیے مکمل انتظامات کر رکھے تھے۔

دادیاں

مجھے سیکولرازم ان سے ہی ورثے میں ملی ہے، میری دادی سے۔ کنبے میں اور بھی بہت سی کہانیاں تھیں لیکن یہ کہانی میری اصل میراث ہے۔ وہ کرسمس ٹری، مما کی چرچ جانے اور کیک بنانے کی یادیں۔

زندگی کے اس لمبے اتار چڑھاو کے باوجود نہ انھوں نے اپنا نام بدلا اور نہ ہی مذہب تبدیل کیا۔ پھر ایک ہندو اور ایک مسیحی عورت کی دوستی اور یہ حقیقت کہ شاید وہ دونوں ایک ہی شخص سے پیار کرتی تھیں۔

میں نہیں جانتی کہ محبت کیا ہے لیکن میں یقینی طور پر سمجھتی ہوں کہ یہ ایک دوسرے کے احترام کرنے سے متعلق ہے۔ ہم مما اور ان کے مذہب کا احترام کرتے تھے بلکہ ہم اس کا جشن مناتے تھے۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ ہم اس پر کبھی گفتگو نہیں کرتے تھے لیکن آج میں نے خاموشی کے اس معاہدے کو توڑ دیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *