ایک ریاضی دان جادوگر نے کیسے کسینو کی

ایک ریاضی دان جادوگر نے کیسے کسینو کی

ایک ریاضی دان جادوگر نے کیسے کسینو کی ایک بڑی غلطی کی نشاندہی کی

انڈسٹری کے اعلی افسران پریشان تھے۔ اُن کی کمپنی کسینو (جوا خانہ) کے لیے ایسی مشینیں بناتی تھی جو تاش کے پتوں کو شفل یعنی مِکس کر کے بالکل صحیح کارڈ نکالتی تھیں۔ ان کی اس طرح کی ہزاروں مشینیں لاس ویگاس اور دنیا کے مختلف شہروں میں موجود کسینوز میں زیر استعمال تھیں۔

ان مشینوں کے کرائے سے کمپنی ہر برس دسیوں لاکھ ڈالر کماتی تھی اور کمپنی نیو یارک سٹاک ایکسیچ میں تجارتی کمپنیوں کی فہرست میں بھی شامل تھی۔

کمپنی کے افسران کو حال میں یہ پتہ چلا کہ ان کی کمپنی کی مشینوں کو دھوکے بازوں کے ایک گینگ نے ہیک کر لیا ہے۔ اس گینگ نے شیشے کی ایک کھڑکی کے ذریعے ایک ایسا خفیہ کیمرہ نصب کر دیا جس سے کارڈز کی شفلنگ کا طریقہ کار ریکارڈ کیا جا سکے۔

کیمرے کے ذریعے ریکارڈ کی گئی تصاویر گینگ کے اس ممبر کے پاس جاتی تھیں جو کسینو کے باہر کار پارک میں بیٹھا ہوا ہوتا تھا۔ وہ سلو موشن یعنی آہستہ رفتار پر ان تصاویر کو چلاتا تھا جس سے یہ پتہ چل سکے کہ آخر کار مشین کس طرح اور کس ترتیب میں کام کرتی ہے۔ بعد میں یہ معلومات کسینو میں جوا کھیلنے والوں کو دے دی جاتی تھی۔ جب تک اس گروہ کا پتہ چلا تب تک کسینو کو دسیوں لاکھ ڈالر کو نقصان ہو چکا تھا۔

کمپنی کے افسران نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ ان مشینوں کو دوبارہ ہیک نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے شفلنگ مشین کا ایک نیا ایسا اعلیٰ درجے کا نمونہ تیار کرایا جس کو انھوں نے ایک غیر شفاف یا شیشے کے ایک ایسے باکس میں رکھا جس میں آر پار نہیں دکھائی دیتا تھا۔

ان کے انجینیئروں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ مشین ایک بار میں کارڈ اتنی تیزی اور بے ترتیب طریقے سے گڈمڈ کرے گی کہ جس سے ایک باری سے دوسری باری کے درمیان وقت بھی کم لگے گا اور دھوکہ دہی کرنے والے جواریوں کو مات دینے میں مدد ملے گی۔

لیکن کمپنی کے افسران کو اس بات کی یقین دہانی کرانی تھی کہ ان کی مشین کارڈز کو صحیح طریقے سے شفل کرے۔ اس کے لیے انھوں نے پرسی ڈایاکونس سے رابطہ کیا۔

ڈایاکونس امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی میں ایک ریاضی دان تھے جو پہلے ایک جادو گر ہوتے تھے۔ وہ کارڈ شفلنگ کے طریقہ کار کو سمجھنے والے دنیا کے سب سے بڑے ماہر تھے۔ کارڈ شفلنگ کے موضوع پر جتنا بھی لٹریچر اور معلومات موجود تھی اس میں ان کا نام بار بار سب سے زیادہ آتا تھا۔

کسینو کمپنی کے افسران نے جب ان سے کارڈ شفل کرنے والی مشین کی اندرونی جانچ کے لیے رابطہ کیا تو انھیں اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں ہوا۔

سٹینفرڈ میں ان کی ساتھی سوزن ہولمز کے ساتھ ڈایاکونس نئی مشینوں کا معائنہ کرنے لاس ویگاس پہنچے۔

کسینو

دونوں نے بہت جلد مشینوں میں ایک نقص نکال لیا۔ شفلنگ کا جو طریقہ کار تھا وہ تو ویسا ہی تھا جیسا کہ ہونا چاہیے لیکن نتیجہ نکالنے والی ڈیک میں نمبر جس ترتیب سے نکلتے تھے ان کے بارے میں پیشن گوئی کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔

ان مشینوں سے جو کارڈ نکلتے تھے یا تو ان کے نمبر بڑھتے ہوئے یا گھٹتے ہوئے آرڈر میں نکلتے تھے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ڈایا کونس اور سوزن ہولمز نے کارڈ کے نمبر کے بارے میں پیشن گوئی کرنے کا ایک طریقہ نکالا۔ شفلنگ کے بعد جو پہلا کارڈ آیا اگر اس کا نتیجہ پانچ ہارٹس والا کارڈ تھا تو انھوں نے اندازہ لگایا کہ ایک کارڈ جو نکلے گا وہ چھ ہارٹس والا ہو گا۔

انھوں نے یہ اندازہ اس بات سے لگایا کہ نمبر بڑھ رہے ہیں۔ لیکن اگر اس سے اگلے کارڈ کے نمبر کم ہو رہے تھے تو اس کا مطلب تھا کہ نمبر اب کم ہونے لگلے تھے اور ان کا اندازہ تھا کہ اس سے اگلا کارڈ تین ہارٹس والا ہو گا۔

اس سادہ سی حکمت عملی سے وہ کارڈ کی ایک گڈی میں کم از کم 9 سے 10 کارڈز کے نمبروں کے بارے میں بالکل صحیح اندازہ لگا پائے جس سے کسی بھی باصلاحیت کارڈ کاؤنٹر کا دوگنا یا تین گنا فائدہ ہو سکتا تھا۔ کارڈ کاؤنٹنگ یا کارڈوں کی گنتی ایک ایسا طریقہ کار ہے جس سے جوا کھیلنے والا شخص اس بات کا ریکارڈ رکھ سکتا ہے کہ کون سے کارڈ نکل چکے ہیں جس کے بعد جیتنے یا ہارنے کا اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔

یہ طریقہ کار دہائیوں سے زیر استعمال ہے۔ برج نامی گیم میں اس طریقہ کار کی اجازت ہوتی ہے لیکن کسینو میں بلیک جیک جیسے کھیلوں میں یہ بالکل ممنوع ہے۔ کسینو میں اس تکنیک کا استعمال غیر قانونی ہے۔

ڈیاکونس کی تفتشیش کا نتیجہ سُن کر کمپنی کے افسران بے حد غصہ اور خوفزدہ ہو گئے۔ انھوں نے ڈیاکونس کو لکھا ’ہم آپ کے نتائج سے خوش نہیں ہیں۔‘ کمپنی نے خاموشی سے اس نئی مشین کو ہٹا دیا اور ایک مختلف مشین لگا لی۔

ڈیاکونس نے اپنی پوری زندگی آرڈر یعنی ترتیت اور نمبروں کی بے ترتیبی کو سمجھنے میں صرف کر دی۔ پھر چاہے اس میں ’پیغامات کی ڈیکوڈنگ‘ ہو یا ویب سرچ انجنز کی اوپٹیمائزیشن ہو اور اسی معلومات کو انھوں نے کارڈ شفلنگ سے متعلق بے حد اہم سوالات کو سمجھنے میں استعمال کیا۔

تاش میں ان کی دلچپسی ایک محض اتفاق تھا۔ سنہ 1958 میں جب ان کی عمر تیرہ برس تھی نیو یارک کے ٹائمز سکوائر میں واقع تانین میجک ایمپوریم میں اُن کی ملاقات سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اور جادوگر ایلیکس ایمزلی سے ہوئی جنھیں کارڈز کو بالکل صحیح طریقے سے شفل کرنے یعنی ’پرفیکٹ شفل‘ پر مہارت حاصل تھی۔

پرفیکٹ شفل کو ’فیرو شفل‘ بھی کہتے ہیں۔ اس میں کارڈز کی ایک گڈی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک حصے میں 26 اور دوسرے حصے میں بھی 26 کارڈ ہی ہوتے ہیں اور کارڈ کی گڈی کے دونوں حصوں کے جب ملایا جاتا ہے تو وہ ایک زپر کی طرح ایک دوسرے پر بیٹھتے ہیں۔ بہت کم لوگ دس سیکنڈ سے کم میں یہ کام کرسکتے تھے۔ ڈیاکونس کو یہ مہارت حاصل تھی۔

جادوگر اور جواری کارڈ شفل کرنے کے اس طریقے کا صدیوں سے استعمال کررہے ہیں۔ دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ کارڈوں کو بے ترتیت طریقے سے شفل کیا جارہا ہے لیکن یہ بالکل میں بے ترتیب نہیں ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پرفیکٹ شفل کے اس طریقے کو ایک ساتھ آٹھ بار دوہرایا جائے تو کارڈ اپنے اصل آرڈر پر آ جاتا ہے۔

ڈیاکونس کارڈ کی نئی گڈی لے کر اس کے ایک کنارے پر کالے رنگ کی سیاہی سے ’رینڈم‘ لفظ لکھ کر پرفیکٹ شفل دکھاتے تھے۔ جب وہ اپنے ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہیں تو الفاظ الٹے پلٹے ہوجاتے ہیں۔ کارڈ شفل کرتے وقت کبھی دکھائی دیتے اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔

لیکن جب آخری اور آٹھویں بار شفل کرتے ہیں تو واپس ’رینڈم‘ لفظ کارڈ کی گڈی کی سائڈ پر لکھا نظر آنے لگتا ہے۔ کارڈ بالکل اسی ترتیب میں ہوتے ہیں جس میں وہ پہلے تھے۔

تانین میجک ایمپوریم میں ایمزلی نے ڈیاکونس کو اس چال کے پیچھے کے حساب یا میتھس کے بارے میں بتایا۔ ان کا کہنا تھا ذرا سوچو کے تم نے کارڈ کی ایک نئی گڈی میں تاشوں کو ایک سے 52 تک کے نمبر دیے ہیں جس میں سب سے اوپر والا کارڈ نمبر ون ہے اور سب سے نیچے والے کارڈ کا نمبر 52 ہے۔

جب پرفیکٹ شفل کرتے ہیں تو کارڈ کے نمبر ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو کارڈ دوسرے نمبر پر تھا وہ تیسرے نمبر چلا گیا اور جو کارڈ تیسرے نمبر پر تھا وہ پانچویں نمبر پر چلا گیا۔ اسی طرح سے جو کارڈ 27ویں نمبر پر تھا وہ دوسرے نمبر پر آجائے گا، وغیرہ وغیرہ۔

کسینو

ایمزلی کے ساتھ اس ملاقات کے بعد ہاتھ کی صفائی کے ماہر جادوگر کی نگرانی میں جادو سیکھنے کے لیے ڈیاکونس چودہ برس کی عمر میں گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ دونوں نے دس برس سڑک پر گزارے اور اس دوران شفلنگ کے ہر طریقہ کار کو سیکھا اور ہر اس دھوکہ باز جواری کو ڈھونڈ نکالا جسے کارڈ شفل کرنے کی ایک سے ایک نئی اور کامیاب تکنیک آتی تھی۔

ایمزلی کے ساتھ بات چیت کے بعد ڈیاکونس کو یہ تجسّس ہوا کہ ریاضی اور جادوگری کے درمیان مزید اور کیا رشتہ ہے؟ ڈیاکونس کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ کارڈوں کو پرفیکٹ شفل کرنے کے لیے سات بار شفل کرنا کافی ہوتا ہے۔

اس طریقے کو ’رفل شفل‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کا استعمال پیشہ ور جواری اور کسینو کرتے ہیں۔ ساس طریقہ کار کے تحت کارڈز کی گڈی کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور کارڈز کو ایک کے اوپر ایک ملانے کے بجائے بے ترتیب طریقے سے ملایا جاتا ہے جس میں ضروری نہیں کہ ایک کارڈ کو دوسرے کارڈ پر بٹھایا جائے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک کارڈ کو ایک اور کبھی دو کارڈز کے اوپر بھی بٹھایا جا سکتا ہے۔

رفل شفل کے تحت ایک یا دوسری بار ہی کارڈوں کو ملانے میں بعض کارڈ تو اپنی اصل ترتیب میں رہتے ہیں لیکن جب آپ کارڈوں کا ساتویں بار شفل کرتے ہیں تو کارڈ بالکل بے ترتیب ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد آپ کتنا بھی کارڈز کو شفل کریں کچھ فرق نہیں پڑتا۔

اس طریقے کو سمجھنے کے لیے ڈیاکونس نے ایک طاقتور ریاضی ٹول مارکو چینز کا استعمال کیا۔ جنوبی کیلیفورنیا کی یونیورسٹی میں ریاضی دان سمیی حائس آصف کہتے ہیں کہ ’مارکو چینز کوئی بھی بار بار کیے جانے والا ایک ایسا ایکشن ہوتا ہے جس کے نتیجے کا انحصار اس کے حالیہ صورتحال پر ہوتا ہے نا کہ اس نتیجے کو کیسے حاصل کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مارکو چین کو اس بات کی کوئی یاداشت نہیں ہوتی کے اس لمحے سے پہلے کیا ہوا تھا۔‘

کارڈ شفلنگ کے لیے یہ ایک بہترین ماڈل ہے۔ کارڈز کو ساتویں بار شفل کرنے کا نتیجہ چٹھی بار جو شفلنگ ہوئی اس سے متاثر ہوتا ہے ناکہ پانچویں یا چوتھیں بار والی شفلنگ سے۔

مارکو چینز کا سٹیٹسٹکس اور کمپوٹر سائنئس میں رینڈم نمبروں کی ترتیت کو سمجھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سرچ انجن میں مختلف ویب سائٹس کی مقبولیت کس ترتیب سے ہو گی اس کے لیے گوگل مارکو چينز جیسے سادہ طریقے کا استعمال کرتا ہے۔

اس طریقہ کار کے تحت ان اربوں انٹرنیٹ صارفین کی پسندیدہ ویب سائٹس کا اندازہ لگایا جاتا ہے جو بغیر سوچے سمجھے ویب سائٹس پر کلک کرتے ہیں اور اس سے ہی گوگل یہ اندازہ لگاتا ہے کہ کون سے ویب سائٹ سب سے زیادہ مقبول ہے جس کے بعد گوگل سب سے مقبول ویب سائٹ سب سے پہلے صفحے پر دکھاتا ہے۔

نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے ریاضی دان ڈیو بیئر کے ساتھ کام کر کے ڈیاکونس نے یہ دکھایا کہ رفل شفل میں ساتویں بار میں ترتیب سے لگے کارڈ بالکل صحیح طرح سے گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ یہ طریقہ یا رویہ ریاضی میں ’کٹ آف فنومنا‘ کہلاتا ہے اور جن پروبلمز میں مکسنگ شامل ہوتی ہے اس میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔

تصور کیجیے کہ آپ کافی میں کریم مکس کر رہے ہیں۔ جب آپ کریم مکس کر رہے ہوتے ہیں تو وہ پہلے کالی کوفی میں سفید سفید لکریں بناتی ہے اور آخر کار وہ کوفی میں بالکل گُھل مِل جاتی ہے۔

یہ یاد رکھنا کہ کہ کارڈ کس طرح شفل کیے جا رہے ہیں۔ کارڈ پوری طرح مکس ہو گئے ہیں یا ان کی ترتیب کے بارے میں کچھ یاد ہے اس سے جواریوں کو دوسرے جوا کھیلنے والوں پر برتری حاصل ہوتی ہے۔

1990 کی دہائی میں ہاروڈ اور ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے طلبا کے ایک گروپ نے تب اس پر کامیابی پائی تھی جب انھوں نے امریکہ کے مختلف کسینو میں بلیک جیک کھیلا اور اس دوران کارڈ کاؤنٹنگ اور کارڈ شفل کرنے کے دیگر طریقوں کا استعمال کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کارڈز کی گڈی صحیح سے شفل ہوئی تھی یا نہیں۔

اس کے جواب میں کسینو کے مالکان نے کارڈ شفل کرنے کی بہتر مشینیں لگائیں اور جوے کا کھیل شروع ہونے سے پہلے کارڈوں کی گڈی کو اچھی طرح ملایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے کھلاڑیوں کی نگرانی زیادہ کرنی شروع کر دی۔ لیکن آج بھی ایسا کم ہی دکھائی دیتا ہے کہ ایک کارڈ کی گڈی کو صرف سات بار شفل کیا گیا ہو۔

کسینو کے اعلی افسران نے ڈیکانوس اور ان کی ریسرچ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی لیکن ریاضی دانوں، سٹیٹکس پڑھنے والوں اور کمپیوٹر کے ماہرین پر ان کا اثر و رسوخ برقرار ہے جو ’رینڈمنیس’ یا نمبروں کے بے ترتیبی کے پیچھے کی سائنس کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

ڈیاکونس کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر سٹینفورڈ یونیورسٹی میں جنوری 2020 میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ پوری دنیا سے اُن کے ساتھیوں نے ریاضی کے مختلف موضوعات پر لیکچر دیے جن میں گتے کے ڈبے کو زور سے ہلانے کے بعد سیریلر کیسے ہلنا بند کرتے ہیں اور کارڈ کی شفلنگ شامل تھے۔

ڈیکانوس کی خود کی کبھی بھی جوے میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں پیسے کمانے کے اس سے بہتر اور دلچسپ طریقے ہیں لیکن وہ ان لوگوں سے حسد نہیں رکھتے جو اپنے دماغ کا استعمال کر کے دوسروں پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’سوچنا چوری کرنا نہیں ہے۔ سوچنا تو سوچنا ہے۔

شین کیٹنگ سائنسی موضوعات پر لکھتے ہیں اور سڈنی کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز میں ریاضی اور اوشیانوگرافی کے سینیئر لیکچرر ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *