ایف اے ٹی ایف کی شرائط کس نے پوری کیں

ایف اے ٹی ایف کی شرائط کس نے پوری کیں

ایف اے ٹی ایف کی شرائط کس نے پوری کیں ’ایک سابق وزیراعظم نے کہا کوئی جھوٹ بول کر جان چھڑاو‘

`ایف اے ٹی ایف کے معاملے کو تو سمجھیں سنہ 2017 میں جا کر سنجیدگی سے لیا گیا آپ یوں سمجھیں کہ یہ تھا کہ ہم جب ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے حوالے سے میٹنگز کرتے تھے تو تاثر ہوتا تھا بس کوئی جھوٹ بول دو اور جان چھڑاؤ۔ ایک بڑی اہم میٹنگ میں ایک سابق وزیراعظم نے کہا کہ بس یار کوئی جھوٹ بول کر جان چھڑا دو لیکن میں نے اور فارن سیکرٹری نے ان کو واضح طور پر کہا کہ اب جھوٹ بولنے کا وقت گزر گیا ہے۔’

نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ 2017 کے بعد ہمارا افغانستان میں کردار کم ہونے لگا اور پھر پلوامہ والا معاملہ بھی ہو گیا لیکن گزرے وقت نے پاکستان کو معاملے کی نزاکت کو سمجھنے اور مستقبل کے خطرات سے نمٹنے میں مدد دی۔

وہ کہتے ہیں کہ `ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب پہلی بار ہم نے ایف اے ٹی ایف کو بتایا کہ ہم نے نیشنل ٹاسک فورس بنائی ہے تو انھوں نے شاید یہ سوچا کہ ہر بار جیسے یہ جھوٹ بولتے ہیں اس بار بھی انھوں نے جھوٹ بولا ہے انھوں نے ہمیں کہا کہ ہمیں میٹنگ کے منٹس بھجوائیں گے اور پھر جائزے کے لیے بھی ان کے اہلکار آئے۔‘

اس بار پاکستان بہت پرامید تھا کہ وہ گرے لسٹ سے نکل جائے گا لیکن اس کے باضابطہ اعلان سے گھنٹوں پہلے ہی سابق حکمران جماعت کی جانب سے ایک ٹویٹ کی گئی جس میں یہ اشارہ دیا گیا کہ گرے لسٹ سے نکلنے کا کریڈٹ عمران خان کی حکومت کو جاتا ہے۔

یہ کریڈٹ جاتا کس کو ہے اس پر ماہرین سے بات کرنے سے پہلے موجودہ حکومت، سابقہ حکومت اور پاکستانی فوج کے حالیہ بیانات پر نطر ڈالتے ہیں۔

ایف اے ٹی ایف

پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ سے پیغام آیا کہ `اگر ہم آج ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں چلے گئے تو شاید امپورٹڈ حکومت اس کا کریڈٹ لے لے، مگر ہر کسی کو ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ جب سے حکومت بدلی ہے ایف اے ٹی ایف سے متعلق کوئی بھی قوانین پاس نہیں ہوئے، تو پھر اگر ایف اے ٹی ایف سے متعلق کوئی کامیابی ملتی ہے تو وہ ایک اور ایونٹ ہو گا، تھینک یو عمران خان۔‘

پاکستانی فوج کیا کہتی ہے؟

آئی ایس پی آر کے ترجمان میجرجنرل افتخار بابر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ سنہ 2019 میں ڈی ج ایم او کے ماتحت جی ایچ کیو میں حکومت پاکستان کی درخواست پر ایک سیل بنایا گیا تھا۔

اپنے انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ `30 سے زائد محکموں اور وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان کوارڈینیشن کا میکنزم بنایا گیا، سیل نے دن رات کام کر کے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسگ پر موثر لائحہ عمل بنایا جس پر تمام اداروں نے عمل کیا اور اس کی وجہ سے قانون بنا۔۔۔ ان اقدامات کی وجہ سے ترسیلات میں تاریخی بہتری آئی، اگر منی لانڈرنگ کے حوالے سے دیکھیں تو 58 بلین روپے پاکستان نے ریکور کیے۔‘

گرے لسٹ سے نکلنے سے پہلے وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہم وائٹ لسٹ میں رہنا چاہیں گے۔

انھوں نے کہا کہ `کوئی ملک بھی گرے لسٹ میں نہیں رہنا چاہے گا اس کے چیلنجز ہیں اس کے اثرات ہیں۔ یہ سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم کرتا ہے۔۔ یقیناً ہم بین الاقوامی ریگیولیٹری سسٹم کے ساتھ انگیج رہنا چاہیں گے فرنٹ رننر رہنا چاہتے ہیں لیکن گرے لسٹ میں نہیں۔‘

گرے لسٹ ٹاسک پورے کرنے کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟

حماد اظہر

معاشی امور کے ماہر عابد سلہری کہتے ہیں کہ ’یہ مجموعی طور پر پورے پاکستان کے اداروں کا کریڈٹ ہے۔‘ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’اکتوبر سے مارچ تک کے اقدامات سابق وزیر خزانہ حماد اظہر کی قیادت میں لیے گئے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’معاشی نقصانات اپنی جگہ لیکن اگر پاکستان کے فسکل پالیسی اور پریکٹس میں اگر کچھ نقائص تھے جن کو دہشت گروں کی معاونت کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا تو انھیں دور کیا گیا۔‘

عابد سلہری کہتے ہیں کہ اس میں سٹیٹ بینک سے لے کر بینکوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سول و ملٹری اداروں تک تمام کا کردار ہے۔

’بینکوں کو پہلی بار عادت پڑی کہ وہ اپنے کسٹمرز کی بائیو میٹرک کے ذریعے شناخت کریں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی پالیسیوں کو دیکھا، مقدمات میں جو خامیاں تھیں انھیں دور کیا گیا۔‘

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے میں انھیں اقدامات سے مدد ملی۔

ایسا نہیں کہ پاکستان پہلی بار گرے لسٹ میں آیا ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس مقصد کے لیے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کیے جائیں۔

اس تنظیم کے 35 ارکان میں انڈیا بھی شامل ہے تاہم پاکستان اس کا رکن نہیں ہے۔

سنہ 2008 میں ایف اے ٹی ایف نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں پاکستان میں منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسگ کے خلاف جامع سسٹم نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور یہ مانیٹرنگ لسٹ میں آ گیا۔ ایک سال میں تین بار ادارے کی جانب سے بیانات جاری ہوئے اور خدشہ ظاہر ہوا کہ اس کی وجہ سے منی لانڈرنگ ہو سکتی ہے اور دہشت گردی کی مالی معاونت ہو سکتی ہے۔

حافظ سعید

اگلے برس 25 فروری 2009 کو ایف اے ٹی ایف نے جہاں گذشتہ برس دوہرائے جانے والے خدشات کو پھر سے بیان کیا وہیں پاکستان میں اس کے تدارک کے لیے اس ضمن میں کیے جانے والے اقدامات کا خیر مقدم بھی کیا۔ ادارے نے پاکستان سے کہا کہ وہ منی لانڈرنگ کے معاملے پر ورلڈ بینک اور ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ مکمل تعاون بھی کرے۔

سنہ 2010 میں جہاں پاکستان میں اعلیٰ سیاسی قیادت کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کی تجاویز پر ایکشن پلان کے عزم کا خیر مقدم کیا گیا گرے لسٹ سے نکالا گیا وہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ابھی اور بھی اقدامات باقی ہیں جو پاکستان کو کرنا ہوں گے۔ ان میں کراس باڈر کیش ٹرانسفر پر کنٹرول، دہشت گردوں کے اثاثوں کا پتہ لگانے اور ان کو فریز کرنے کے لیے مربوط طریقہ کار بھی شامل تھا۔

اگلے تین برس کے دوران پاکستان کے ایکشن پلان پر عدم اطمینان کا اظہار جاری رہا۔ سنہ 2013 میں پاکستان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ درست قانون سازی کریں اور یقینی بنائیں کہ اس نے ایف اے ٹی ایف کے معیار کے مطابق اقدامات کیے ہیں۔

سنہ 2014 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو انسداد دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس کو باضابطہ طور پر قانون کا درجہ دینے پر زور دیا۔

سنہ 2015 میں پاکستان مانیٹرنگ لسٹ سے نکل آیا۔

سنہ 2018 میں پاکستان ایک مرتبہ پھر گرے لسٹ میں چلا گیا۔ سنہ 2019، 2020 اور 2021 میں بھی یہی صورتحال رہی اور اب طویل انتظار کے بعد پاکستان کے اقدامات پر ایف اے ٹی ایف نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے ادارے کا وفد جائزہ لینے پاکستان آئے گا۔

ڈاکٹر عابد سلہری کہتے ہیں کہ بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے چین، ترکی اور ملائشیا نے ووٹ دیے تھے اور شروع سے آخر تک کھڑے رہے پاکستان کے ساتھ۔ ’اب گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان کو دس ووٹ مزید درکار تھے جو پاکستان کی فارن پالیسی کا بھی ٹیسٹ تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان اس سے پہلے بھی گرے لسٹ میں رہا ہے۔ اس وقت آپ کو کوئی شور زیادہ سنائی نہیں دیا یا بہت زیادہ پتہ نہیں چلا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان اور معربی ممالک کے مفادات مشترک تھے۔ لیکن پچھلے برسوں میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کی پالیسی میں دوری تھی اور اس کی وجہ سے اس کے اثرات پاکستان کو زیادہ برے طریقے سے محسوس ہو رہے تھے۔‘

عابد سلہری کہتے ہیں کہ اب پاکستان کے لیے فائدہ ہو گا کہ یہاں سرمایہ کار لوٹیں گے اور پاکستان سے ٹرانزیکشن بھیجنے اور لانے میں سکروٹنی کے عمل میں مدد ملے گی اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات میں پر عزم ہے۔

ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ماہر قانون سروپ اعجاز نے کہا کہ ’کریڈیٹ کی بات کرنا مشکل ہے لیکن یہ بات درست ہے کہ نکلنے کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا پڑا اور وہ لمبے عرصے میں ہوا، کسٹم کے اقدامات تھے، وزارت داخلہ کو کام کرنا تھا، سب سے بڑا قدم حافظ سیعد کی سزا تھی۔ ہاں کریڈٹ کے دو پہلو ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’ایف اے ٹی ایف کا اصول ہے کہ یا تو تمام نکات پورے کریں یا ان کے قریب ہوں تو آپ دیکھیے کہ پاکستان نے بہت سے اقدامات کیے اور کریڈٹ سابقہ سیاسی حکومت اور اداروں کو تو جاتا ہے لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف اگر ہمیں عملی اقدامات پر دیکھ رہی ہوتی تو پچھلی بار ہی ہمیں لسٹ سے نکال دیتی کیونکہ کارکردگی تو پچھلی بار بھی ٹھیک تھی۔ چاہے منی لانڈرنگ کے خلاف ہو یا پھر ٹیرر فنانسگ کے بارے میں ہو، لیکن دوسرا پہلو سفارتی یا سیاسی نوعیت کا تھا اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایف اے ٹی ایف نیوٹرل نہیں ہے، یہ پولیٹیکل میکنزم ہے، اس کا سیاسی پس منظر ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے اصول و قواعد کا اطلاق تمام ممالک پر یکساں ہوتا ہے۔‘

کریڈیٹ کس کو جاتا ہے؟ اس حوالے سے نیکٹا سے منسلک ایک عہدے دار نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ گرے لسٹ میں جب پاکستان آیا تھا تو اس وقت ملک میں نگراں حکومت تھی اور اس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور اب مسلم لیگ کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت ہے اور ان تمام حکومتوں نے سیاسی طور پر ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

’اس کا کریڈٹ سابقہ حکومتوں اور موجود حکومت کو بھی جاتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ کسی ایک سیاسی جماعت کو نہیں جاتا کیونکہ جو بھی بل پاس ہوئے اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں موجود ہوتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ سیاسی عزم اپنی جگہ لیکن زیادہ کام سول اور ملٹری اداروں نے مل کر کیا ہے۔

`سول اداروں نے ہی کام کرنے تھے چاہے وہ تحقیقات ہیں، مقدمات ہیں، گائیڈ لائنز ہیں پالیسیاں ہیں وہ تو سول اداروں نے ہی کرنا تھا۔ اس میں نیکٹا، منسٹری آف فارن افیئرز، وزارت داخلہ، ایف بی آر، سی ٹی ڈی ڈی، ایس ای سی پی، سٹیٹ بینک، ایس پی ڈی اور دیگر ادارے شامل ہیں۔‘

نیکٹا کے اہلکار نے بتایا کہ قانون بنا کر اس پر عمل درآمد اصل قدم تھا یہ ایکشن پلان ہے۔

’اس عمل میں ملٹری کے اداروں نے بھی کلیدی کردار ادار کیا ہے، یہ ایک سیاسی جماعت یا ایک ادارے کا کام نہیں تھا۔ بہت سے سٹیک ہولڈر شامل تھے، وہ کہتے ہیں ناں `ہول آف دی گورنمنٹ اپروچ‘ تو یہ وہ تھی۔ ہر ادارے میں کچھ ایسے لوگ تھے جنھوں نے اپنی فیملی لائف کمپرومائز کی اپنی چھٹیاں عیدیں بھی قربان کیں کیونکہ یہ روٹین ٹائپ کی گرے لسٹ نہیں تھی جس میں ممالک جاتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔ یہ بہت پیچیدہ عمل تھا۔ ایک ایکشن کے بہت سے سب ایکشن ہوتے تھے۔‘

نیکٹا کے عہدے دار نے بتایا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ جب سال پہلے بلیک لسٹنگ کا شدید خطرہ تھا لیکن ’خیر اس سے ہم نکل آئے اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت یہ بین الاقوامی برادری کے اپنے بھی حق میں بھی نہیں تھا۔‘

’یہ صرف بین الاقوامی برادری کا پریشر نہیں تھا یہ حقیقت میں ہمارا اپنا ملکی مفاد بھی تھا۔ ہاں یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ مکمل طور پر تکنیکی نہیں تھا اس کے کچھ سیاسی پہلو بھی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی تجاویز پر عملدرآمد ضروری ہوتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کو اور ایف اے ٹی ایف کو لائن کھینچنی ہو گی کہ کہاں سے اس ادارے کا کام شروع ہوتا ہے اور کہاں سے دنیا کے دیگر اداروں کا کام شروع ہوتا ہے تاکہ ایف اے ٹی ایف ایک واچ ڈاگ کے طور پر رہے اور اس کے ممبران اسے سیاسی بنیادوں پر استعمال نہ کر سکیں۔‘

احسان غنی کہتے ہیں کہ نیکٹا کا کردار اس میں اہم رہا ہے لیکن فارن آفس میں یہ انڈرسٹینڈنگ تھی کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔

’بہت سے ایکٹرز ایسے ہیں جن کا نہ کسی نے نام لینا ہے نہ دینا ہے وہ وہ لوگ ہیں جو پس پردہ کام کر رہے تھے۔‘

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے پریشر سے پاکستان نے بہت سے اقدامات کیے جو اس کے اپنے فائدے کا باعث ہیں۔

’اے پی ایس ہوا تو ہم جاگ گئے اور پھر سو گئے، سی ایف ٹی کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ سمجھیں کہ اگر ایف اے ٹی ایف کا پریشر نہ ہوتا تو ہم نے جو کام پانچ سال میں کیا وہ 15 برس میں بھی نہ کر پاتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ آپ یہی سمجھ جائیں کہ اب سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ اب ان میٹنگز میں بھی ہمارے وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ میں سے اعلی حکام جاتے ہیں۔

تاہم نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی کہتے ہیں کہ ’گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد مجھے اب یہ خطرہ ہے کہ ہم پھر سے سو جائیں گے، اس لیے ان کوششوں کو ختم نہیں کرنا چاہیے جاری رکھنا چاہیے، ہمیں ایف اے ٹی ایف کے ممبران اور دیگر اداروں کے ساتھ اپنا تعلق رابطہ رکھنا چاہیے، اپنی استعداد بڑھانی چاہیے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’معلوم نہیں کہ کب تک ہم پر یہ تلوار لٹکتی رہے گی اور ہو سکتا ہے ہم سے تھوڑی بہت نرمی اور آسانی برتی جائے لیکن پھر ہم کوئی ایسا کام نہ کر جائیں یا ہمارے متھے لگ جائے، انڈیا کچھ کر دے، ممبئی سٹائل یا پلوامہ جیسا کوئی کام کر دے اور پھر ہمارے ملک کے شناختی کارڈ وہاں پائے جائیں تو ایسے میں ہمیں پھر وہیں (گرے لسٹ میں) دوبارہ سے دھکیل دیا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *