ایف اے ٹی ایف اہداف مکمل مگر پاکستان گرے لسٹ

ایف اے ٹی ایف اہداف مکمل مگر پاکستان گرے لسٹ

ایف اے ٹی ایف: اہداف مکمل مگر پاکستان گرے لسٹ میں برقرار

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے اپنے تمام اہداف مکمل کر لیے ہیں جس کے بعد فیٹف کی ٹیم مستقبل میں پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے اس بات کا تعین کرے گی کہ پاکستان نے سفارشات پر عمل کیا ہے یا نہیں۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی مد میں اصلاحات کی ہیں اور پاکستان کا دورہ کر کے اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے یہ اقدامات مسقتبل میں نافذ العمل رہ پائیں گے یا نہیں۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکس پلیئر نے نیوز کانفرنس کے دوران مزید بتایا کہ ’پاکستان کو آج گرے لسٹ سے نکالا نہیں جا رہا۔ ملک کو اس فہرست سے نکالا جائے گا اگر یہ مقامی دورے میں کامیاب ہوتا ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم رواں سال اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کرے گی اور پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے سے متعلق اعلان اس کے بعد کیا جائے گا۔

ایف اے ٹی ایف کے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فیٹف نے پاکستان کے دونوں اہداف 2018 اور 2021 کی تکمیل کو تسلیم کیا ہے اور گرے لسٹ سے نکالنے کے آخری مرحلے کے طور پر پاکستان کے آن سائٹ وزٹ کی منظوری دی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کو سنہ 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ بنایا گیا تھا اور مارچ 2022 میں ہونے والے نظرثانی اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان نے ’سفارشات کی تکمیل میں خاصی پیشرفت کی ہے‘ تاہم چند نکات پر مزید پیشرفت کی ضرورت ہے۔

یہ فیصلہ ایف اے ٹی ایف کے 13 جون سے 17 جون (یعنی آج) تک جاری رہنے والے ایک پلینری اجلاس میں ہوا جس کی میزبانی برلِن کر رہا تھا اور اس اجلاس میں 206 ممبر ممالک کے نمائندے شریک تھے۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک، اقوامِ متحدہ اور اگمونٹ گروپ آف فنانشل یونٹس بھی اس اجلاس میں بطور مبصر شامل تھے۔

13 جون سے شروع ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے پلینری اجلاس میں پاکستان کی سنہ 2018 اور 2021 کی کارکردگی پر بحث ہوئی اور ان اقدامات کا جائزہ لیا گیا جو پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کی بنیاد پر اٹھائے۔

ایف اے ٹی ایف

اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیرِ مملکت برائے خارجہ اُمور حنا ربانی کھر کر رہی تھیں جو فی الحال جرمنی کے شہر برلِن میں موجود ہیں۔ اپنے دورے کے دوران انھوں نے موجودہ اور سابقہ ایف اے ٹی ایف کے نمائندگان اور سربراہان سے ملاقاتیں کی ہیں۔

پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی سنہ 2018 میں دی گئی تمام 27 سفارشات پر عملدرآمد کر چکا ہے جبکہ سنہ 2021 میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی جانب سے دیے گئے سات نکات میں سے چھ کو قبل از وقت مکمل کر چکا ہے۔

واضح رہے کہ سنہ 2020 میں منی لانڈرنگ کے خلاف پاکستان نے قانون میں ترمیم بھی کی تھی تاکہ مزید کارروائی کی جا سکے لیکن وفاقی حکومت کے ترجمان کے مطابق سنہ 2021 کے ریویو میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ’دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں پیشرفت کی مزید مثالیں سامنے لانے کو کہا گیا تھا۔‘

ایف اے ٹی ایف کے فیصلے پر پاکستان کا ردعمل

پاکستان کے وزارت خارجہ نے فیٹف کے اعلان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اپنے پلینری اجلاس کے دوران ایکشن پلان کے تحت پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیا ہے۔

وزارت خارجہ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے ارکان نے پاکستان کی پیشرفت پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان کو 34 آئٹمز پر مشتمل دونوں ایکشن پلان مکمل کرنے اور خاص طور پر ریکارڈ مدت میں 2021 کے ایکشن پلان کی جلد تکمیل پر مبارکباد دی۔

وزات خارجہ کے مطابق پاکستان نے کووڈ 19 کی وبا سمیت بہت سے چیلنجز کے باوجود ان ایکشن پلانز کی کامیاب تکمیل کے لیے اپنی انتھک کوششیں جاری رکھیں۔

برلن میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں شرکت کرنے والے پاکستانی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اس فیصلے کو ‘خوش آئند پیش رفت’ قرار دیا ہے۔ اُن کے مطابق انھیں یہ بتانے میں بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب اس فیٹف پروسیجر کے تحت ہمارا گرے لسٹ سے نکلنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

ان کے مطابق رواں برس اکتوبر میں پاکستان کا گرے لسٹ سے نام نکلنے کا عمل مکمل ہو جائے گا۔

انھوں نے اس پر پوری قوم کو مبارکباد دی ہے۔ انھوں نے اس کام کو یقینی بنانے کے لیے تمام متعلقہ وزارتوں اور افسران کی محنت کو بھی سراہا ہے۔

منی لانڈرنگ، ایف اے ٹی ایف
سنہ 2020 میں منی لانڈرنگ کے خلاف پاکستان نے قانون میں ترمیم بھی کی تھی تاکہ مزید کارروائی کی جا سکے

پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال حکومتی ترجمان قدرے بہتر جائزے کے لیے پُر امید نظر آ رہے تھے۔

پاکستان کی موجودہ وفاقی حکومت سے منسلک ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اب تک ملنے والی اطلاعات یہی بتا رہی ہیں کہ اس بار معاملہ پاکستان کے حق میں جائے گا ’لیکن پاکستان کو اگر گرے لسٹ سے نکالا جاتا ہے تب بھی معاملات طے ہونے میں وقت درکار ہو گا اور سات سے آٹھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔‘

انھوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ گرے لسٹ سے نکلنے کی صورت میں ’ایف اے ٹی ایف ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی تاکہ خود تسلی کر سکیں کہ ان کی سفارشات پر کام مکمل ہو چکا ہے۔‘

ترجمان نے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کو رہ جانے والی دو سفارشات میں قانون میں ترمیم کے ساتھ ساتھ اس کے نفاذ سے متعلق خدشات ہیں، جن کا اظہار وہ کئی بار کر چکے ہیں۔

وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان نے اکثر سفارشات کی تکمیل کر لی ہے لیکن خود کو مکمل طور پر گرے لسٹ سے باہر نکالنے میں ابھی کامیاب نہیں ہوا ہے۔

‘اگر اس بار پاکستان گرے لسٹ سے نکل جاتا ہے تو یہ ایک خوش آئند بات ہو گی کہ اتنے سال کی مانیٹرنگ سے آخر کار باہر نکل آئے۔ سرمایہ کاروں اور دنیا کے لیے ایک مثبت بات ہو گی کہ وہ پاکستان میں سرمایہ لگا سکیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بھی مواقع پیدا ہو سکیں گے۔

ایف اے ٹی ایف، دہشتگردی
دو رہ جانے والی سفارشات میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف عدالتی کارروائی اور منی لانڈرنگ کے خلاف سخت اقدامات متعارف کروانا ہے

تاہم وفاقی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ’حالانکہ معاملات پاکستان کے حق میں جاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ اس اجلاس میں دیگر ممالک بھی ہوتے ہیں جن کی رضامندی اور تسلی بھی معنی خیز ہوتی ہے۔‘

اس کی ایک وجہ سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان بھی ہے جس میں انھوں نے پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا پر الزام عائد کیا تھا۔ سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود نے کہا تھا کہ انڈیا ایف اے ٹی ایف کے فورم کو ’سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔‘

سابق وزیرِ خارجہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ایف اے ٹی ایف ’ایک تکنیکی فورم ہے جسے سیاسی معاملات کو نمٹانے کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔‘

یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے انڈین نژاد سنگاپورین ٹی راجہ کمار کو ادارے کے اگلے صدر کے طور پر دو سال کے لیے منتخب کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

رواں سال مارچ میں اور اس سے پہلے 2021 میں منی لانڈرنگ کا جائزہ لینے والے ایشیا پیسیفک گروپ نے پاکستان کو اپنی دوسری فالو اپ رپورٹ میں مزید نگرانی کی فہرست میں شامل کیا تھا لیکن اس کے باوجود ادارہ گاہے گاہے پاکستان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہا ہے۔

ادارے کی جانب سے پاکستان کو یہ باور کروایا جا چکا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کے خلاف قانون سازی کے ذریعے ہی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔

سنہ 2021 کی رپورٹ کے مطابق ادارے نے فروری 2021 میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تین اہم ترین سفارشات کی تکمیل کرے جن میں دہشتگردوں کو سزا، ان معاملات کی قانونی چارہ جوئی اور مالی معاونت پر پابندیاں شامل ہیں۔

ان تمام سفارشات میں ایک نکتہ رہ گیا تھا جس میں ایف اے ٹی ایف نے دہشت گردوں کے خلاف قانون سازی اور ان کو ملنے والی مالی معاونت کی تفتیش کرنے پر بھی زور دیا تھا۔

اسی سلسلے میں ادارہ پاکستان سے دہشتگردوں کی مالی معاونت پر پابندی کے قانونی اطلاق کا ثبوت بھی مانگتا رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *