اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں

اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں

اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کی گئیں تو زیادہ نقصان کسے ہو گا؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کا ’حقیقی آزادی مارچ‘ قریب ایک ماہ تک زیر بحث رہا مگر 26 نومبر کو راولپنڈی میں اسے روکنے کے فیصلے نے بہت سے لوگوں کو حیران کیا جب چیئرمین تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تنبیہ دی۔

عمران خان کی جانب سے پاکستان میں قبل از وقت عام انتخابات کا مطالبہ کرنے والے اس مارچ کو عوامی پذیرائی مل رہی تھی۔

اس کو دیکھ کر تمام سیاسی ماہرین یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ عمران خان یا تو دارالحکومت اسلام آباد میں بڑی انٹری کریں گے یا پھر ہزاروں لوگوں کے ساتھ غیر معینہ مدت کے دھرنے پر بیٹھ جائیں گے۔

لیکن اس اعلان سے نہ صرف سیاسی ماہرین بلکہ سیاسی مخالفین بھی دنگ رہ گئے۔ انھوں نے غصے سے بھری طویل تقریر کے بعد اعلان کیا کہ ’ہم تمام اسمبلیوں سے خود کو الگ کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے اپنی جماعت کو اس ’کرپٹ نظام‘ سے الگ کرنے کی بھی دھمکی دی۔

عمران خان

لانگ مارچ اچانک ختم کر کے اسمبلیوں کی تحلیل کی دھمکی کیوں؟

عمران خان نے اپنی پارٹی کی حکومت والی تمام اسمبلیوں سے دستبرداری کا اعلان کیا تاہم اسمبلیاں تحلیل کرنے کی کوئی تاریخ نہیں دی اور کہا کہ وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنے وزرائے اعلیٰ اور پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کریں گے۔

اس کے بعد سے عمران خان اپنی پارٹی اور اتحاد کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد عمران کا دعویٰ ہے کہ ’سب نے متفقہ طور پر انھیں اسمبلی تحلیل کرنے کا حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے۔‘

اگر حکمران اتحاد نے جلد از جلد پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان نہ کیا تو ’صوبائی حکومتیں کسی بھی وقت تحلیل ہو سکتی ہیں۔‘

پاکستان میں اگلے عام انتخابات اکتوبر 2023 میں ہونے ہیں لیکن عمران خان جنھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا، اس سے قبل انتخابات کرانے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجودہ حکومت کے اقتدار میں رہنے کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں۔

تاہم عمران خان کے مخالفین ان کے مطالبے کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔ حکمران جماعتیں بار بار یہ بات دہرا رہی ہیں کہ جب تک عمران خان کا رویہ اور بات کرنے کا انداز درست نہیں ہوگا ان کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔ شہباز شریف حکومت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ پیشگی شرائط کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔

اس کے بعد عمران کے رویے میں نرمی کے آثار گزشتہ ہفتے سے ہی آنے لگے۔ اس سے پہلے وہ اپنے مطالبے پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نظر نہیں آتے تھے، مخالفین سے کسی قسم کی بات چیت کے موڈ میں بھی نہیں تھے۔

ایک انٹرویو میں عمران نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اس حکومت کو جواب دینے کے لیے صرف چند دن دیں گے، وہ ہر قیمت پر مارچ سے پہلے الیکشن کروانا چاہتے ہیں۔

مخالفین کے مطابق لانگ مارچ کی ناکامی عمران خان کو صاف نظر آرہی تھی جس کے بعد انھوں نے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی دھمکیاں دے دی۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان نے مینڈیٹ کی توہین کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔

رانا ثنا اللہ نے یہ بھی کہا کہ پی ڈی ایم حکومت آئینی نظام کے مطابق کام جاری رکھے گی اور جو بھی صورتحال سامنے ہے اس کا سیاسی حل نکالے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ’ہم اگلے انتخابات کو جتنی دیر ہو سکے ملتوی کریں گے۔ ہم نہیں چاہیں گے کہ ہمارا اتحاد صرف دو صوبوں کے انتخابات میں شامل ہو۔‘

ثنا اللہ کے بیان کا مطلب ہے کہ عمران خان کی پارٹی کا کوئی بھی مطالبہ پورا نہیں ہوگا۔ اگر اسمبلی تحلیل ہو گئی تو دونوں صوبوں میں حکومت ان کی ہو گی۔

پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی اپنے استعفے جمع کرا چکے ہیں مگر قانونی کارروائی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی منظوری زیر التوا ہے۔ استعفوں کی منظوری ہر رکن کو ذاتی طور پر سپیکر کے پاس جا کر تصدیق کرنی ہوتی ہے۔

شہباز شریف

الیکشن کی تاریخ پر تناؤ اور بیک ڈور مذاکرات

پاکستان کی سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی کے مطابق ’حکمران پی ڈی ایم اس ساری صورتحال میں ’انتظار اور دیکھو‘ کی حکمت عملی اپنا رہی ہے۔

’عمران خان اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں ان کے پاس کیا راستے ہوں گے۔‘

عاصمہ شیرازی کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم کے تمام حلقوں کو یقین ہے کہ عمران اسمبلی تحلیل کرنے جیسا کوئی قدم نہیں اٹھانے والے ہیں۔ ’اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس سے نمٹنے کے لیے سیاسی آپشن بھی ان کے ساتھ تیار ہیں۔‘

عاصمہ شیرازی کے مطابق عمران خان کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ ان کی نظریں راولپنڈی پر جمی ہوئی ہیں۔ ’وہ نئی قیادت (یعنی نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر) کی طرف سے کسی اشارے کے منتظر ہیں لیکن اب وہ اس معاملے کو کسی بھی طرح غیر مشروط طور پر حل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔‘

اگر خیبرپختونخوا اور پنجاب میں اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو ان صوبوں میں نئے انتخابات وفاق میں پی ڈی ایم حکومت کی نگرانی میں ہوں گے جس پر تحریک انصاف کو اعتراض ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر عمران کی اپنی پارٹی کے اندر ہی مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ پارٹی کے ایک طبقے کو لگتا ہے کہ حکومت تحلیل کرنے کا فیصلہ زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

مگر سینیئر صحافی شہزاد اقبال کے مطابق عمران خان کی بجائے اتحادی جماعتیں ’بیک فٹ‘ پر ہیں۔

شہزاد اقبال کا کہنا ہے کہ ’پی ڈی ایم کے لوگ پہلے کہہ رہے تھے کہ اگر عمران قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں تو ان کی پارٹی کے لوگ صوبائی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں۔ اب جب عمران نے ایسا کرنے کا اعلان کیا ہے تو پی ڈی ایم والے کہنے لگے کہ ہم ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ بھی کنفیوژ ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ عمران کی پارٹی اور حکومت کے نمائندے بیک ڈور بات چیت میں مصروف ہیں۔ ’عمران خان کی پارٹی کے بعض رہنماؤں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس گفتگو کے نتیجے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر حکومت مئی میں بھی انتخابات کرانے پر رضامند ہو جاتی ہے تو پھر صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘

ساتھ ہی کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے صوبائی حکومتوں سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے مطالبات کی تکمیل کے لیے جو کچھ کرنا تھا وہ کیا لیکن اس سب کے باوجود انھیں کچھ نہیں ملا۔

تاہم ان کے مسلسل احتجاج کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔ اس بنیاد پر اگلے الیکشن میں ان کے جیتنے کے امکانات کافی بڑھ گئے ہیں لیکن ان کا اسمبلیوں سے واک آؤٹ کرنے کا مطالبہ نظر نہیں آتا۔

زرداری

کیا اسمبلیاں تحلیل ہونے سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچے گا؟

یہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ حکومت کی توقعات کے برعکس عمران اگر صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر کیا ہو گا یہ کہنا مشکل ہے۔ کیا مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ اسلام آباد میں مستحکم رہ سکے گی؟

ماہرین کے مطابق ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے بہت سے آپشنز موجود ہیں۔ اس میں خیبرپختونخوا اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ صوبوں میں گورنر راج کے نفاذ جیسے آپشنز شامل ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی اس کام کو مکمل کرنے کے لیے پہلے ہی آصف علی زرداری کو مقرر کر چکی ہے۔ زرداری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں اور پاکستان میں اپنے سیاسی رابطوں کے لیے جانے جاتے ہیں۔

زرداری آزاد ارکان کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطے کر رہے ہیں تاکہ انھیں اپنے حصار میں لے کر پی ٹی آئی کے سارے منصوبے کو ناکام بنایا جا سکے۔

خیبرپختونخوا اور پنجاب میں حکومت کی تحلیل کا مطلب ہے کہ پاکستان میں اسمبلی کی 66 فیصد نشستیں خالی ہو جائیں گی اور بظاہر سیاسی بحران مزید بڑھے گا۔

پی ڈی ایم حکومت ایسی صورتحال سے آسانی سے نمٹنے کا دعویٰ تو کر سکتی ہے مگر اس سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود رہے گا۔

اگر ایسا ہوا تو اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا معاشی بحران پاکستان کی موجودہ حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دے گا۔ پاکستان میں جاری عدم استحکام کے باعث آئی ایم ایف سے مذاکرات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

قرض کی اگلی قسط کے حوالے سے یہ بات چیت نومبر میں ہی ہونی تھی لیکن سیاسی عدم استحکام کے باعث دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی مالی امداد دینے سے قبل آئی ایم ایف کی جانب سے گرین سگنل کے منتظر ہیں۔ لہٰذا اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو موجودہ نظام کا بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔

معروف کالم نگار ملیحہ لودھی کے مطابق ’مسلسل سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے ملک کا پورا نظام کمزور ہو چکا ہے اور سیاسی محاذ آرائی کے تھمنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ ہر تحریک میں سیاستدان کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگی لیکن یہ لڑائی کبھی ختم نہیں ہوتی۔‘

ملیحہ کے مطابق پاکستان کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو کوئی ریلیف نظر نہیں آ رہا۔

’نہ ایسی سیاست سے، نہ حکمرانی کے سنگین چیلنجوں سے اور نہ ہی دور اندیشی والے معاشی انتظام سے۔ اس صورتحال میں سرکاری اداروں پر عام لوگوں کا اعتماد بھی ڈگمگاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *