اٹلی کے قریب کشتی حادثے میں کم از کم 100 افراد

اٹلی کے قریب کشتی حادثے میں کم از کم 100 افراد

اٹلی کے قریب کشتی حادثے میں کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کا خدشہ: ’دو درجن سے زیادہ پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں انتہائی تشویشناک ہیں

اٹلی کے جنوبی علاقے میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں بچوں سمیت 100 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 12 بچوں سمیت 62 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔

کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہونے والی کشتی میں 200 کے قریب افراد سوار تھے۔ اتوار کے روز یہ کشتی اس وقت تباہ ہو گئی جب اس نے اٹلی کے جنوبی علاقے کروٹون میں لنگر انداز ہونے کی کوشش کی۔

کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔ سرکاری زرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے کم ازکم چار پاکستانیوں کی شناخت کی جا چکی ہے جن کا تعلق پنجاب کے علاقے گجرات اور راولپنڈی سے بتایا جارہا ہے۔

یہ کشتی کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہوئی تھی اور اس میں افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور ایران کے باشندے سوار تھے۔

ڈوبنے والوں کی لاشیں کیلابریا کے علاقے میں ساحل سمندر کے کنارے واقع ایک ریزورٹ سے برآمد کی گئیں۔

کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ 80 افراد زندہ پائے گئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب بھی کچھ افراد لاپتہ ہیں۔ زندہ بچ جانے افراد میں کچھ ایسے بھی جو گشتی ڈوبنے کے بعد خود ساحل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

کسٹم پولیس نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک شخص کو تارکین وطن کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ غربت یا دیگر وجوہات کی وجہ سے سالانہ ایک بڑی تعداد میں لوگ افریقہ کی جانب سے اٹلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم اٹلی کے ساحل پر کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ممکنہ موجودگی کی خبروں سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔

دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ روم میں پاکستانی سفارت خانہ اطالوی حکام سے واقعے کے حقائق جاننے کے عمل میں مصروف ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ’اٹلی میں کشتی کے حادثے میں دو درجن سے زیادہ پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں انتہائی تشویشناک ہیں۔ میں نے دفتر خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ جلد از جلد حقائق کا پتا لگایا جائے اور قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔‘

کشتی کے حادثے میں ڈوبنےوالوں کو بچانے کے لیے جب امدادی کارروائیاں جاری ہیں اس وقت اسولا ڈی کاپو ریزوٹو قصبے کے ایک عارضی استقبالیہ مرکز میں کمبلوں میں لپٹے ہوئے افراد رو رہے تھے۔

خیراتی ادارے میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) سے تعلق رکھنے والے سرجیو ڈی داٹو کا کہنا ہے کہ ‘وہ شدید صدمے کا شکار ہیں۔ ”کچھ بچوں نے اپنے پورے خاندان کو کھو دیا ہے۔ ہم انہیں ہر ممکن مدد کی پیش کش کر رہے ہیں۔ “

افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک 16 سالہ لڑکا ساحل پر اپنی 28 سالہ بہن کی لاش کے قریب بیٹھا ہوا ہے اور اس میں اپنے والدین کو بتانے کی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کو بتائے کہ ان کی بیٹی مر چکی ہے۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والا ایک 43 سالہ شخص اپنے 14 سالہ بیٹے کے ساتھ زندہ بچ گیا، لیکن اس کی بیوی اور اس کے تین دیگر بچے، جن کی عمریں 13، 9 اور 5 سال تھیں، وہ زندہ نہیں رہے۔

امدادی کارروائیوں میں مصروف ایک غیر سرکاری تنظیم ایس او ایس میڈیٹیرینی کے ترجمان فرانسسکو کریزو نے کہا”یہ ایک اور المیہ ہے جو ہمارے ساحلوں کے قریب ہو رہا ہے۔ وسطی بحیرہ روم کہ یہ ہم سب کو یاد دلاتا ہے کہ بحیرہ روم ایک بہت بڑی اجتماعی قبر ہے، جس میں ہزاروں جانیں ہیں، اور یہ مسلسل وسیع ہوتی جا رہی ہے۔

’ایسا سانحہ کبھی نہیں ہوا‘

بتایا گیا ہے کہ یہ کشتی اس وقت ڈوب گئی تھی جب خراب موسم میں یہ سمندر میں موجود پتھروں سے ٹکرائی جس کے بعد بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔

ویڈیو فوٹیج میں کشتی کا ملبہ ساحل پر دیکھا جا سکتا ہے۔

زندہ بچ جانے والوں کو کمبل لپیٹے دیکھا گیا جن کی مدد ریڈ کراس کے اہلکار کر رہے تھے۔ ان میں سے چند کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔

قصبے کے میئر انتونیو کیراسو نے رائے نیوز کو بتایا کہ ’اس سے پہلے بھی ساحل ہر لوگ اترتے ہیں لیکن ایسا سانحہ کبھی نہیں ہوا۔‘

کسٹم پولیس نے کہا ہے کہ اس واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک فرد کو انسانی سمگلنگ کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔

اٹلی

اطالوی وزیر اعظم جیورجیا میلونی، جو گذشتہ سال تارکین وطن کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے وعدے کے ساتھ منتخب ہوئی تھیں، نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے سمگلرز کو ان اموات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’ایک محفوظ سفر کے جھوٹے وعدے کے لیے ایک ٹکٹ کی قیمت کے عوض مردوں، عورتوں اور بچوں کی زندگیوں کا سودا کرنا غیر انسانی فعل ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس کی روک تھام کے لیے پرعزم ہے۔

جیورجیا میلونی کی دائیں بازو کی حکومت نے اس عزم کا اظہار کر رکھا ہے کہ تارکین وطن کو ملک کے ساحل تک پہنچنے سے روکا جائے گا۔ گذشتہ چند دنوں میں ان کی حکومت ایسے سخت قوانین منظور کروا چکی ہے جو ریسکیو سے متعلق ہیں۔

اٹلی کے سابق وزیر خزانہ کارلو کلینڈا نے کہا ہے کہ سمندر میں مشکل کا سامنا کرنے والے لوگوں کو ہر قیمت پر بچانا چاہیے لیکن غیر قانونی راستے بند کرنا ہوں گے۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈر لین نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’معصوم تارکین وطن کی ہلاکت ایک سانحہ ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یورپی قوانین میں ترامیم اور اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں تاکہ غیر قانونی طور پر یورپ کا سفر کرنے کے مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔

اٹلی

دوسری جانب پوپ فرانسس، جو تارکین وطن کے حقوق کا دفاع کرتے رہے ہیں، نے کہا کہ وہ مرنے والوں، بچ جانے والوں اور لاپتہ لوگوں کے لیے دعا کر رہے ہیں۔

مانیٹرنگ گروپس کے مطابق سنہ 2014 میں بحیرہ روم کے وسطی حصے میں 20 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔

مائگرینٹ آف شور ایڈ سٹیشن کی ڈائریکٹر رجینا کیٹرامبون نے بی بی سی کو بتایا کہ یورپی ممالک کو مل کر ان لوگوں کی مدد کرنا ہو گی۔

ان کا ادارہ بحیرہ روم میں ریسکیو آپریشن کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ سوچ ختم ہونی چاہیے کہ جو ملک افریقہ اور مشرق وسطی کے قریب ہیں، ان کو اس مسئلے کے حل میں آگے بڑھنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب تک یورپی ممالک میں ملک کر ان لوگوں کی مدد کرنے پر کوئی تعاون نہیں ہو رہا۔ انھوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ کہ وہ ریسکیو کے نظام کو مضبوط کریں اور تارکین وطن کے لیے محفوظ اور قانونی راستے بنائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *