اویغور برادری قدیم اور شاندار تاریخ

اویغور برادری قدیم اور شاندار تاریخ

اویغور برادری قدیم اور شاندار تاریخ کی حامل چین کی اویغور برادری جو کبھی منگولوں پر حکمرانی کرتے تھے

آج یہ برادری محکوم ہے اور ممکنہ طور پر اپنی تاریخ کے بدترین وقت کا سامنا کر رہی ہے لیکن کبھی اویغور ایک سلطنت تھی جس نے منگولوں کے علاقوں پر حکومت کی، چنگیز خان کو رسم الخط دیا، تیمور دی لیم نے ان پر حکمرانی کی، ایک صوفی تھیوکریسی قائم کی، اور 20 ویں صدی میں دو بار ایک آزاد جمہوریہ بنی۔

اپنی ایک منفرد ثقافت، زبان اور مذہب کے ساتھ اویغوروں کی ایک قدیم تاریخ ہے جو آٹھویں صدی سے جا ملتی ہے۔

فرانس میں نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ سے تعلق رکھنے والے فرانسیسی مؤرخ الیگزینڈر پاپاس نے بی بی سی منڈو کو وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ ان کی نسل کے آغاز کے حوالے سے کچھ تضادات موجود ہیں اور ان کے بارے میں ہمارے پاس پہلا ثبوت اس وقت کا ہے جب وہ موجودہ منگولیا کے علاقے میں رہتے تھے اور انھوں نے ایک سو برس تک قائم رہنے والی ایک ایسی سلطنت یا ریاست قائم کی جسے ’خانات‘ کہا جاتا ہے۔‘

جنھیں ہم آج منگولوں کے طور پر جانتے ہیں اس وقت وہ نہیں ہوا کرتے تھے اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والی ترک آبادی اویغور نے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کر رکھا تھا جہاں وہ مانویت کا پرچار کرتے تھے۔ (مذہب مانی جس کی بنیاد ایک فارسی شخص مانی نے رکھی تھی اور یہ مذہب چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں رائج تھا)

یہ مذہب شاہراہ ریشم کے ذریعے مشرق بعید تک پھیلا تھا۔ ان کے چین کے ساتھ تعلقات تھے اور وہ سادہ اور خانہ بدوش زندگی گزارتے تھے۔

اویغور

اویغور دراصل آج کی ترکوں کی دور کی نسل ہیں۔ آج ترکی میں رہنے والے بھی وہی لوگ ہیں جو کبھی وسطی ایشیا سے اٹھے تھے لیکن انھوں نے مغرب کی جانب سفر کیا اور اناطولیہ کے جزیرہ نما میں جا کر بس گئے اور یونانی، آرمینیائی اور دیگر آبادیوں کے ساتھ جا کر گھل مل گئے۔ جبکہ اویغوروں نے اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کیا اور مشرق کی جانب چل پڑے۔

یہ نویں صدی سے قبل کی بات ہے کہ وہ اس علاقے میں آ کر آباد ہوئے جسے آج ہم مشرقی ترکستان یا سنکیانگ کے نام سے جانتے ہیں۔ چینی اصطلاح میں بھی اس کا لفظی مطلب ‘نئی سرحد’ ہے اور جسے وہ نوآبادیاتی سمجھتے ہیں۔

الیگزینڈر پاپاس کہتے ہیں کہ ’ہمیں مکمل طور پر یہ علم نہیں ہے کہ انھوں نے ہجرت کیوں کی تھی البتہ عمومی طور پر وہ نئی چراگاہوں، مقامات اور وسائل کی تلاش میں تھے یا انھیں دیگر آبادیوں نے اس طرف دھکیل دیا تھا۔‘

یہاں پہنچ کر وہ مکمل طور پر آباد ہو جاتے ہیں اور اپنا مذہب تبدیل کر لیتے ہیں۔ ایک حصہ بدھ مت بن جاتا ہے اور دوسرا نیسٹورین ازم کو اپناتا ہے، جو عیسائیت کی قدیم ترین شاخوں میں سے ایک ہے، جو وسطی ایشیا کے مشنریز کے ذریعے یہاں آئی تھی۔

لیکن یہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا، دسویں صدی میں یہاں اسلام کی زبردست ترویج شروع ہوئی اور اویغورں کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔

چنگیز خان
چنگیز خان

چنگیز خان

تیرھویں صدر میں ایک ایسا حکمران ابھرا جس نے پورے خطے کو پلٹ کر رکھ دیا اور جس کی فتح حاصل کرنے کی طاقت یورپ تک پہنچ گئی۔

یہ شخص چنگیز خان تھا، جس نے منگول خانہ بدوشوں کے قبیلوں کو اکٹھا کیا اور بہت سے علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے مشرقی ترکستان پر بھی حملہ کیا۔

فرانسیسی محقق کا کہنا ہے کہ ’منگول سلطنت میں اویغور کا مقام ایک دانشور اشرافیہ کا تھا، یہ اب ایک سیاسی طاقت نہیں تھے لیکن فکری طور پر ایک ترقی یافتہ تھے، درحقیقت یہ ہی وہ لوگ تھے جنھوں نے منگولوں کو لکھنا سکھایا تھا۔‘

آج بھی منگول رسم الخط جو چین کے منگولیا خطے میں استعمال کیا جاتا ہے قدیم اویغور رسم الخط سے لیا گیا ہے۔ یہ رسم الخط آرامی زبان سے لیا گیا جو کہ ایرانی زبان ’سغدیان‘ کے حروف تہجی میں تبدیلی کے دور سے گزرا اور عربی حروف تہجی کو اپنانے کے بعد اسے ترک کر دیا گیا۔

ان کی اپنی تاریخ کی طرح اویغوروں کے اپنے رسم الخط کا ارتقا بھی ہنگامہ خیز رہا۔ اویغورں کا عربی رسم الخط بیسویں صدی کے شروع تک استعمال کیا جاتا رہا۔

جب قوم پرست چین نے اس خطے پر قبضہ کیا تو سوویت اثر و رسوخ کی وجہ سے اسے سیریلک حروف تہجی میں تبدیل کر دیا گیا، پھر لاطینی میں اور 1970 کی دہائی کے آخر میں یہ عربی میں واپس آ گیا۔

چنگیز خان کی موت کے بعد منگول سلطنت اس کے بیٹوں میں تقسیم ہو گئی اور جس خطے میں اویغور آباد تھے وہاں وہ دوسرے درجہ کے شہری بن گئے اور یہ خطہ چغتائی خان کے پاس چلا گیا جہاں اس نے خانیت کے نام سے اپنی سلطنت قائم کی۔

فرانسیسی محقق پاپاس کہتے ہیں کہ ’اس معاشرے نے اویغوروں کو اپنے اندر مکمل ضم کر لیا اور وہ کچھ ایسے کھو گئے کہ ان کے نام بھی مٹ گئے۔ اس وقت شاید ہی کوئی اویغوروں کا ذکر کرتا تھا لیکن ترک آبادی کے بارے میں بات ہوتی تھی۔ اب وہ قرونِ وسطی کے اویغور نہیں رہے تھے۔‘

تیموری سلطنت

تاہم اس زمانے میں سلطنتیں اور ریاستیں قلیل المدتی ہوتی تھی۔ چغتائی خانات، جس کی قیادت اس وقت اس کی اولاد نے کی تھی، کو تیمور نے 1370 میں فتح کیا۔

ترک اور منگول نسل سے تعلق رکھنے والے اس معزز شخص کو ‘تیمور دی لیم’ بھی کہا جاتا ہے، 1370 میں ماسکو کے داخلی سرحدوں تک جا پہنچا تھا اور اس نے خطے کی باگ ڈور سنبھال کی تھی۔ لیکن بعد ازاں اسے دوبارہ چغتائی خان کے ہاتھوں شکست ہوئی اور اس نے سترھویں صدی تک اپنے حکومت قائم رکھی۔

صوفی تھیوکریسی

اس دوران میں اس خطے میں ایک بار پھر منگول طاقت پکڑتے ہیں اور اس خطے پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

اگرچہ ان میں سے کچھ بدھ مت تھے اور انھوں نے آبادی کے مذہب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن ان میں سے جو بچ جانے والے تھے ان کا تعلق مسلم سلطنتوں سے تھا کو کاشغر کے خطے سے شروع ہوئی تھی جنھیں اس دور میں ‘خویاز’ کہا جاتا تھا اور وہ صوفی تھے۔

تصوف اس خطے میں مشنریوں کے ذریعے سولھویں صدی کے نصف میں داخل ہوا تھا جہاں اویغور آباد تھے۔

یہ صوفیانہ دھارا جو ایک روحانی اسلام کی تبلیغ کرتا تھا، اپنے ساتھ ایک پوری ادبی، فکری اور فلسفیانہ ثقافت لایا تھا جس نے اویغوروں کے مذہبی شعور میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔

مشرقی ترکستان کے کچھ خوبصورت مقبرے اور مساجد اسی دور کے ہیں اور اب بھی زیارت کے مقامات ہیں۔

اویغور

البتہ یہ خط منگولوں کے زیر سایہ رہا لیکن یہاں کے اصل حکمران ‘خویاز’ تھے اور انھوں نے سنہ 1754 تک چینی فوجیوں کی آمد سے قبل تک خطے میں صوفی تھیوکریسی کو نافذ کیے رکھا۔

چنگ سلطنت

صدیوں سے، چینی سلطنت اور مشرقی ترکستان نے سفارتی اور تجارتی تعلقات برقرار رکھے تھے لیکن اس وقت تک چنگ خاندان، جسے مانچو خاندان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے نے یہاں حملہ نہیں کیا تھا۔

فرانسیسی محقق الیگزینڈر پاپاس کہتے ہیں کہ ’چنگ اپنی سرحدوں پر عدم استحکام کے متعلق بہت زیادہ فکر منگ اور پانچ برسوں میں انھوں نے مشرقی ترکستان پر اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور منگولوں کو وہاں سے تقریباً مار بھگایا۔‘

تاہم وہ اس خطے پر صرف عسکری طور پر فاتح تھے، مقامی آبادی کی حمایت انھیں حاصل نہیں تھی۔

انھوں نے اس خطے میں اپنے زیر سایہ ایک محافظ ریاست بنانے کی کوشش کی تھی جہاں اکثر ان کے خلاف مظاہرے ہوتے اور بغاوت ہوتی رہتی تھی۔

اس دوران ‘خویاز ‘ جو وسطی ایشیا کی جانب پیچھے ہٹ گئے تھے، دوبارہ اس خطے میں داخل ہوئے اور انھوں نے آہستہ آہستہ طاقت حاصل کر لی۔

یعقوب بیگ
یعقوب بیگ

تقریباً ایک صدی تک اس خطے میں بہت زیادہ عدم استحکام رہا جب تک کہ یقوب بیگ نے یہاں قبضہ حاصل کر کے سلطنت قائم نہیں کی لیکن یہ سلطنت بھی زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔

مورخین کے مطابق دلچسپ امر یہ تھا کہ روسیوں اور یورپی نے چینیوں کے ساتھ کھیل کھیلنے کے لیے اس سلطنت کو پیش کیا تھا کیونکہ اس وقت ان کی اپنی سلطنتیں اس خطے میں پھیل رہی تھیں۔

قوم پرست چین

اس کے بعد قوم پرست چین کا دور کا آغاز ہوا، سنہ 1911 کے انقلاب نے چین سلطنت کا خاتمہ کیا لیکن اس سب کے دوران مشرقی ترکستان میں حالات نہیں بدلے۔

الیگزینڈر بتاتے ہیں کہ ‘اس دوران بھی اویغور اپنے زبان بول سکتے تھے، انھیں مذہبی آزادی حاصل تھی اور حتیٰ کہ انھیں چینی زبان سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔’

قوم پرستی کے جوش میں سنکیانگ میں بہت سے افراد بطور قوم اپنی شناخت سے آگاہ ہونے لگے۔ اس خطے کی سرحدیں سوویت یونین کے علاقوں سے ملتی تھی جو بعد میں وسطی ایشیا کی سوویت سوشلسٹ جمہوریہ بن گئی ، اور یہ تشویش مشرقی ترکستان کے ذریعے منتقل ہونے لگی تھی۔

اگر اس کی شروعات دیکھیں تو سنہ 1930 میں ‘اویغور’ نام دوبارہ سامنے آیا جو اس معاشرے میں عملی طور پر کہیں کھو گیا تھا۔ اور یہ شناخت آج تک بھی یہاں موجود ہے۔

ان ساز گار حالات نے انھیں 1933 میں مشرقی ترکستان کی پہلی جمہوریہ بنانے پر مجبور کیا۔ یہ صرف ایک سال ہی چل سکی، لیکن آزادی کی خواہش پہلے ہی زور پکڑ چکی تھی، اور 1944 اور 1949 کے درمیان یہ تجربہ دوسری جمہوریہ کے ساتھ دہرایا گیا، جس میں دو مذاہب کے افراد ایک ساتھ رہتے تھے: ایک مسلم قوم پرست اور دوسرے کمیونسٹ۔

اس خطے نے سویت کے زیر سایہ خطے کی طرح کام کیا جب تک کہ چینی کے قوم پریست رہنما ماؤ زے تنگ کی لبریشن فوج نے انھیں شکست نہیں دی۔ اس وقت ماؤ زے تنگ نے سنکیانگ کے خود مختار اویغور خطے کی بنیاد رکھی تھی۔

ماؤ نے یہاں چینی قوم پرستوں کا ایک ایسا نظام بنایا تھا جسے منزو بھی کہا جاتا ہے جس میں اکثریت ایک نسلی گروہ ‘ہان’ کی تھی جبکہ اس میں دیگر 55 اقلیتیں، جن میں تبتی، منگول یا اویغور بھی شامل تھے۔

خویا نیاز
آزاد جمہوریہ مشرقی ترکستان کے پہلے صدر خویا نیاز

اقلیت کے طور پر اس خطے کی پہچان کے باوجود، سنکیانگ، جس کا مطلب چینی زبان میں ‘نئی سرحد’ ہے کو ایک قسم کا ‘مغرب بعید’ سمجھا جاتا ہے اور اس چین میں ضم کرنے کے لیے یہاں ‘ہان’ کی ہجرت کروا کر اسے دوبارہ آباد کرنا ضروری سمجھا گیا۔

سنہ 1960 کی دہائی سے، اویغوروں کو چین میں ایک ایسی قوم کے طور پر دیکھا جانے لگا جس کی ‘اصلاح کرنا ضروری ہے۔’

سنہ 1967 میں شروع ہونے والا ثقافتی انقلاب جس کے اثرات ایک دہائی بعد بھی دیکھے گئے تھے، اور اس خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے تھے۔ دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا، مساجد اور مقبروں کو تباہ کیا گیا۔

سنکیانگ جبری مشقت کا ایک بڑا کیمپ بن گیا جہاں چین بھر سے زیر حراست افراد کو لایا جاتا تھا جنھیں حکومت رجعت پسند سمجھتی تھی۔

سنہ 1980 کے اوائل میں ڈینگ ژاؤپنگ کے ساتھ چیزیں تبدیل ہوئیں۔ الیگزینڈر اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘اس دور میں اقلیتیوں کے حوالے سے بہت واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی، اب انھیں رجعت پسند رسم و رواج والے نہیں سمجھا جاتا تھا۔

اب اقلیت اور اکثریت کے درمیان ایک اہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔

چین کی یونیورسٹیوں میں ثقافت کی بنیاد پر تنظیمیں قائم ہوئیں اور 12 دسمبر 1985 کو علاقائی دارالحکومت ارومچی میں طلبا کی ایک تحریک سڑکوں پر نکلی تھی تاکہ مزید جمہوریت کا مطالبہ کیا جا سکے اور مشرقی ترکستان میں ہونے والے جوہری تجربات کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔

تیانمن

سنہ 1989 میں پورے ملک میں رواداری کی فضا بدل چکی تھی، اسی برس بیجنگ کے تیانمن سکوائر میں طلبہ کا قتل عام ہوا۔

حکام نے ان تمام تر اجتماعات پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا جسے وہ ایغور کی آزادی کے طور پر دیکھتے تھے۔ حتی کہ خطے میں ‘میش رپ’ کے ثقافتی تقاریب پر بھی پابندی لگا دی گئی جس میں نوجوان اکٹھے ہو کر روایتی موسیقی جسے ‘مقام’ بھی کہا جاتا ہے بجائی جاتی اور وہ اس پر ناچتے تھے۔

سنہ 1997 میں گوجالا کے شہر میں ‘میش رپ’ کی تقریبات کو پرتشدد طریقے سے کچلا گیا اور اویغور برادری کی مزاحمت کے نتیجے میں سینکڑوں ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔

الیگزینڈر پاپاس کے مطابق ‘جب اویغوروں کے پاس سیاسی اظہار کا کوئی موقع نہ بچا تو انھوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اویغور دہشت گردی کا جنم ہوا۔’

اس مسلح مزاحمت کے نتیجے میں چین میں مختلف دہشت گردی کے واقعات ہوئے جن میں سنہ 1997 میں ایک بس پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے جس میں دو چینی شہری مارے گئے تھے۔

اویغور

الگزینڈر کہتے ہیں کہ ‘یہ کشیدگی ایک بار پھر سنہ 2009 میں اس وقت بڑھی جب پہلی مرتبہ ارومچی میں بین الامذاہب تنازعہ پیدا ہوا اور تب سے اس تناؤ میں کمی نہیں ہوئی ہے۔

’چینی حکومت کی جانب سے خطے میں اویغوروں کو دبانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں انھیں دیگر آبادی سے علیحدہ کیا گیا ہے اور وہ اس تقسیم کے نظام کے تحت بہت سی نوکریاں نہیں کر سکتے ہیں۔‘

سنہ 2013 اور 2014 میں دہشت گرد حملوں کی ایک لہر کی ذمہ داری ترکستان اسلامک پارٹی نے قبول کی ہے جو عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ سے منسلک ایک چھوٹی لیکن غیر واضح تحریک ہے۔’

تربیتی مراکز

تربیتی مراکز

لیکن جب یہ لگا کہ اویغورں کے لیے حالات اس سے بدتر نہیں ہو سکتے تو سنہ 2017 میں چینی حکومت کی جانب سے تربیتی حراستی مراکز قائم کیے گئے، جو ان کی زندگیوں میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔

فرانسیسی محقق بتاتے ہیں کہ ‘ماضی میں جبری مشقت کے کیمپ چین کے نظام انصاف کا حصہ تھے، شاید یہ منصفانہ نہیں تھے لیکن انھیں یہاں پر ایک مبینہ غلطی کرنے کی سزا دی جاتی تھی۔ مگر اویغورں کے تربیتی کیمپ بہت بڑے ہیں اور یہاں ہر طرح کی آبادی ہے۔ ایسے افراد بھی یہاں موجود ہیں جنھوں نے کچھ نہیں کیا ہے۔’

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان تربیتی مراکز میں دس لاکھ سے زائد یعنی چین میں اویغورں کی کل آبادی کے دس فیصد حصہ کو یہاں قید کیا گیا ہے۔

الیگزینڈر چین کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘یہاں لوگ ہر دوسرے دن یہ جانے بغیر غائب ہو جاتے ہیں اور ان کے خاندانوں کو کسی قسم کی معلومات نہیں دی جاتی کہ وہ کہاں قید ہیں۔ انھیں ریاست اغوا کر لیتی ہے۔ اور جو باہر ہیں وہ مستقل کنٹرول کے تابع ہیں، مشرقی ترکستان نگرانی کی ٹیکنالوجی کی ایک لیبارٹری بن چکا ہے۔’

چین کی جانب سے اویغوروں پر جبر نے دنیا بھر میں اویغوروں کی ایک بڑی تعداد کو تارکین وطن بنا دیا جو امریکہ اور یورپ میں آباد ہیں اور جرمنی کے شہر میونخ میں موجود اپنی برادری کی تنظیم کے صدر دفتر میں عالمی اویغور کانفرنس کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

اپنے اسلامی عقائد اور ترک نسل سے تعلق ہونے کے باوجود اویغور برادری کو دنیا کے دیگر مسلم ممالک سے زیادہ ہمدردی نہیں ملی۔ اس کی ایک بڑی وجہ چین کا عالمی معیشت میں مقام اور جغرافیائی مفادات ہیں۔

الیگزینڈر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘بہت سے مسلم ممالک چین سے تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں اور دوسرا وہ اویغور برادری کو بہت مختلف مسلم سمجھتے ہیں۔’

محقق کہتے ہیں کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ اویغور اپنی قدیم تاریخ کے سب سے مشکل اور سخت وقت سے گزر رہے ہیں۔’

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *