انڈیا میں کسانوں کا احتجاج اداکارہ سونیا من نے احتجاج

انڈیا میں کسانوں کا احتجاج اداکارہ سونیا من نے احتجاج

انڈیا میں کسانوں کا احتجاج اداکارہ سونیا من نے احتجاج کی حمایت کے لیے اپنا کیرئیر قربان کر دیا

مشہور شخصیات اکثر صرف انھی مہمات کی حمایت میں آواز اٹھاتی ہیں جو انھیں پسند آتی ہیں اور ایک انڈین اداکارہ نے اپنے کیریئر کو کسانوں کے حقوق کے لیے لڑنے کے لیے پوری طرح قربان کر دیا ہے۔

سونیا من نے بی بی سی آؤٹ لک ریڈیو پروگرام کو بتایا ’میری فلم کی اس ماہ شوٹنگ شروع ہونے والی تھی لیکن انھوں نے یہ فلم مجھ سے واپس لے لی ہے۔‘

سونیا 2012 سے فلموں میں اداکاری کررہی ہیں اور اب تک مختلف انڈین زبانوں میں ایک درجن سے زیادہ فلموں میں کام کر چکی ہیں۔

ان کی حالیہ ہندی فلم ’ہیپی ہارڈی اور ہیر‘ جو لندن اور سکاٹ لینڈ میں فلمائی گئی تھی، 2020 میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ ان کی آخری فلم ہو سکتی ہے۔

انڈیا میں بالی وڈ کی اہمیت کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ سونیا نے خود اپنی مرضی سے ’دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت‘ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بے تہاشا دولت، شہرت، پہچان اور نجانے کیا کیا۔۔۔ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن وہ کہتی ہیں کہ انھیں کوئی پچھتاوا نہیں۔ وہ کہتی ہیں ’بالی وڈ کے سیٹوں سے زیادہ خوشی اور اطمینان انھیں کسانوں کے احتجاج میں شامل ہو کر ملتا ہے۔‘

سونیا من

فلمی دنیا سے جڑے کسی بھی شخص کے لیے انڈین حکومت کی مخالفت مول لینا ایک خطرناک عمل ہو سکتا ہے۔ ماضی میں حکومت پر تنقید کرنے والے کئی اداکاروں کو اپنی فلموں کی نمائش کے سلسلے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سونیا جانتی تھی کہ کسانوں کے احتجاج میں حصہ لینے سے ان کے ابھرتے ہوئے کیریئر کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور انھیں متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ حکومت کے خلاف بات نہ کریں لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا۔

خوف

کئی ریاستوں کے کسان گذشتہ ستمبر کے بعد سے نئی دہلی کے مضافات میں تین نئے حکومتی قوانین کے خلاف احتجاج میں جمع ہو رہے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت حکومت کا اصرار ہے کہ یہ نئے قوانین کسانوں کی آمدنی کو بہتر بنائیں گے لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس ہو گا کیونکہ اصلاحات کارپوریٹ کمپنیوں کو زیادہ سودے بازی کی طاقت فراہم کرتی ہیں۔

سونیا من

سونیا کہتی ہیں ’میں جانتی ہوں کہ انڈیا میں کسان قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ انھیں سبسڈی اور حکومت کی طرف سے زیادہ امداد نہیں مل رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 100 کلو مکئی کی کم از کم قیمت 1800 روپے (یعنی 25 ڈالر) ہے لیکن کسان کو صرف 900 سے 1000 روپے تک مل رہے ہیں۔‘

کسانوں کو خوف ہے کہ نئے قوانین کے نتیجے میں حکومت کم سے کم قیمتوں کو مکمل طور پر ختم کردے گی تاکہ بعد میں بڑے کاروباروں کو قیمتوں میں کمی لانے کا موقع مل سکے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اناج، دالوں، گنے، تیل کے بیجوں اور زرعی پیداوار سے حاصل ہونے والی دیگر چیزوں کی قیمتوں کا تعین جاری رکھے گی۔

سونیا من

حکومت اس تحریک پر دباؤ ڈال رہی ہے اور احتجاج کو ’بغاوت کا اقدام‘ بھی قرار دیا گیا۔

کچھ سینئیر حکومتی وزرا نے مظاہرین کو ’خالصتانی‘ کہہ کر بھی پکارا ہے اور جان بوجھ کر سنہ 80 کی دہائی میں سکھ علیحدگی پسندوں کی پرتشدد مسلح جدوجہد کا پھر سے ذکر شروع کر دیا ہے۔

پولیس کے ساتھ کچھ جھڑپوں کے باوجود کسانوں کا یہ احتجاج بڑے پیمانے پر پر امن رہا ہے۔ سونیا کا کہنا ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کرتی ہیں اور تنازعات سے دور رہتی ہیں۔

ٹرولز سے نمٹنا

کسانوں کے احتجاج پر تنقید کرنے والوں کے لیے سونیا ایک انتہائی نمایاں ہدف ہیں۔

سونیا بتاتی ہیں ’حکومت کے کچھ حامیوں نے میری ایک فلم سے، بکنی والے سین نکال کر میری اہلیت پر سوال اٹھائے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اور کم کپڑے پہننے والی عورت کسانوں کی نمائندگی کیسے کر سکتی ہے۔‘

سونیا سوشل میڈیا ٹرولز کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کسانوں کی طرف سے ملنے والی حمایت پر خوش ہیں۔

سونیا کہتی ہیں ’بہت سے بوڑھے میرے ساتھ اپنی بیٹیوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ مجھے ان کی آنکھوں میں درد نظر آتا ہے۔ وہ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں۔ میں انھیں نہیں چھوڑ سکتی۔‘

سونیا من

اس احتجاج میں صرف نعرے ہی نہیں لگائے جاتے۔ دلی جانے والی سڑک کے قریب ہزاروں کسانوں نے کیمپ لگایا ہوا ہے۔ وہ وہیں کھاتے اور وہیں سوتے ہیں اور یکم جنوری کو یہاں خون جما دینے کی حد تک سردی تھی۔

سونیا کہتی ہیں ’یہاں زیادہ صفائی نہیں ہے۔۔۔ یہاں رہنا مشکل ہے۔ بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کسی ہوٹل میں کیوں نہیں رہتیں؟ میں نے کہا نہیں۔‘

ٹینٹ

اب کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے واش روم اور بیت الخلا کی سہولیات بنائی ہیں۔ سونیا انھی عارضی ٹینٹوں میں اپنے دن اور رات گزار رہی ہیں۔۔۔ وہ یہیں کھا رہی اور یہیں سو رہی ہیں۔

دوسروں کی طرح وہ بھی کھانا پکاتی اور صفائی کرتی ہیں۔ وہ صورتحال کو بہتر بنانے والے وسائل کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

’میں نے 2500 خواتین کے لیے پناہ گاہیں بنوائی ہیں کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ خواتین احتجاج کا حصہ بنیں۔ میں نے ان کے لیے خیموں کا اہتمام کیا ہے۔ میں کھانا اور کمبل بھی فراہم کرتی ہوں۔ اب موسم گرما کا وقت ہے لہذا میں ان کے لیے پنکھوں کا انتظام بھی کر رہی ہوں۔‘

سونیا من

بکھرے ہوئے خواب

سونیا نے خود کو احتجاج کے لیے وقف کر دیا ہے اور وہ صرف جلسوں سے خطاب کرنے کے لیے یہاں سے باہر نکلتی ہیں تاکہ کسانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کی جا سکے۔ فراغت کے اوقات میں وہ سوچتی ہیں کہ انھوں نے کیا کیا کھویا ہے۔

انھوں نے بالی ووڈ کے ایک معروف ہیرو ہریتک روشن کے ساتھ بھی اداکاری کی ہے اور وہ ایک بڑی سٹار بننے کے خواب رکھتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں ’میرا خواب شاہ رخ خان کے ساتھ کام کرنا تھا۔‘ وہ جانتی ہیں کہ اب ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

سونیا من

’میں ایک کسان ہوں‘

سونیا امرتسر شہر میں پلی بڑھی ہیں اور انھوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ان کی ریاست پنجاب انڈیا بھر کو اناج فراہم کرتی ہے۔

ان مظاہروں میں سونیا کے علاقے کے کسان، جو زیادہ تر سکھ ہیں، وہ سب سے آگے ہیں۔

سونیا من

سونیا کہتی ہیں ’میرا تعلق کسانوں کے خاندان سے ہے اور میں خود کو کسان سمجھتی ہوں اور اپنی زمینوں پر ناشپاتی اگاتی ہوں۔‘

وہ سکھ بھی ہیں۔ اداکاری کرنے سے قبل سونیا اپنے 10 ایکڑ فارم میں ایک مکمل کسان تھیں لیکن انھیں احتجاج کا حصہ بنانے میں نہ ان کے مذھب کا ہاتھ ہے اور نہ ہی ناشپاتی کی محبت انھیں سڑکوں تک کھینچ لائی ہے۔

سونیا کا کہنا ہے کہ ’انقلاب ان کے خون میں ہے۔‘

ستمبر 1990 میں جب وہ محض 16 دن کی تھیں تو ان کے والد بلدیو سنگھ من کو انڈیا کے شہر امرتسر میں اس وقت ہلاک کردیا گیا جب وہ پہلی بار سونیا سے ملنے جا رہے تھے۔

بلدیو سنگھ من

بلدیو سنگھ من نے نومولود سونیا کے نام ایک خط لکھ رکھا تھا جسے وہ ساتھ لیجا رہے تھے۔۔۔ ان پر ہونے والے اس حملے میں خط محفوظ رہ گیا تھا اور وہی اب سونیا کی رہنمائی کرتا ہے۔

ان کے والد نے لکھا ’میری پیاری بیٹی، سچ کی لڑائی میں تمھیں ہر اول دستے کا حصہ ہونا چاہیے۔ میرا ایسا کوئی خواب نہیں کہ تم سکھ، ہندو یا مسلمان بنو۔۔۔ ایسی شناختوں سے بالاتر ہو کر انسان بننے کی کوشش کرو۔‘

کسی کو بھی ان کے والد کے قتل کے الزام میں انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا تھا۔ سونیا کے والد ایک کمیونسٹ تھے جو کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑتے تھے۔

سونیا نے یہ خط اپنے آبائی گھر میں فریم کرکے دیوار پر لگا رکھا ہے مگر ہمیشہ اس کی ایک کاپی اپنے پاس رکھتی ہیں۔

’جب بھی میں یہ خط پڑھتی ہوں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ان کے ساتھ بیٹھی ہوں اور ان کا ذہن پڑھ رہی ہوں۔‘

سونیا من

میرا ہیرو

سونیا کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے واضح طور پر غلط اور صحیح کی نشاندہی کر دی۔ سنہ 2019 میں ان کے والد پر ایک کتاب لکھنے والے مصنف نے سونیا سے پوچھا کہ وہ انھیں کیا لکھیں گی۔

سونیا نے یہ لکھا: ’پیارے ڈیڈی، آپ میرے پائلٹ اور ہیرو ہیں۔ آپ کی بیٹی بننا کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے۔۔۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھ پر فخر کر سکیں گے اور ان خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتی رہوں گی جو آپ نے میرے لیے دیکھے تھے، جیسا آپ نے خط میں ذکر کیا ہے۔‘

لڑائی کی لکیریں واضح ہیں

اس احتجاج نے ملک بھر سے حمایت اور ہمدردی حاصل کی ہے۔ کینیڈا اور برطانیہ کے پارلیمنٹیرینز نے بھی پولیس کے ہتھکنڈوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

سونیا من

حکومت نے نئے قوانین پر عمل درآمد کو 18 ماہ کے لیے معطل کردیا ہے اور بات چیت کی پیشکش کی ہے لیکن کسان خوش نہیں ہیں۔ انھوں نے اس تحریک کو جاری رکھنے کے لیے ایک مفصل منصوبہ تیار کیا ہے۔

’پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کا ہر گاؤں 20، 20 افراد کے گروپ کو ہمارے احتجاج کا حصہ بننے کے لیے بھیج رہا ہے۔ 20 دن کے بعد دوسرا گروپ ان کی جگہ لے لے گا۔‘

سونیا کا کہنا ہے کہ دیہاتوں میں غصہ اتنا زیادہ ہے کہ اگر کوئی ایک گھر احتجاج میں شریک ہونے سے انکار کرتا ہے تو باقی سارا گاؤں ان کا بائیکاٹ کر دیتا ہے۔

’ہم یہیں رہیں گے اور زرعی قوانین کے مکمل طور پر واپس لیے جانے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *