انڈیا میں مسلم تنظیم ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا

انڈیا میں مسلم تنظیم ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا

انڈیا میں مسلم تنظیم ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ کے دفاتر پر چھاپے، 100 سے زیادہ رہنما گرفتار

انڈیا کے قومی تفتیشی ادارے این آئی اے نے دیگر ایجنسیوں کے ہمراہ ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ نامی تنظیم کے دفاتر پر ملک گیر چھاپے مار کر اس کے 100 سے زیادہ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہے۔

این آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف مائل کر رہی ہے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

این آئی اے اہلکاروں نے یہ چھاپے دلی، کرناٹک، اتر پردیش، کیرالہ، آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور کئی دیگر ریاستوں میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس سے وابستہ تنطیموں کے دفاتر پر مارے ہیں۔

وزیر داخلہ امیت شاہ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبال اور اعلیٰ پولیس اہلکاروں کے ساتھ اس ملک گیر کارروائی کی نگرانی کر رہے تھے۔

ذرائع کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ این آئی اے نے کہا ہے کہ ’ہم نے چھاپے مارنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب اس تنظیم کے خلاف کچھ اہم ثبوت ہاتھ لگے۔ ہم نے ان لوگوں کی رہائش گاہوں اور دفاتر پر چھاپے مارے ہیں جو مبینہ طور پر دہشت گردی کے لیے فنڈ جمع کرنے، تربیتی کیمپ لگانے اور پی ایف آئی میں شامل ہونے کے لیے نوجوانوں میں انتہا پسندی کے نظریات پھیلانے میں ملوث تھے۔‘

پاپولر فرنٹ ہمیشہ سے دہشت گردی کے ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں، پسماندہ طبقوں اور دلتوں کے حقوق اور انھیں با اثر بنانے کے لیے کام کرتی ہے اور اس کا انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔

کئی ریاستوں میں ان چھاپوں کے خلاف پاپولر فرنٹ کے کارکنوں نے احتجاج بھی کیا ہے اور اسے ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی سازش قرار دیا ہے۔

پاپولر فرنٹ کی سیاسی شاخ کے نائب صدر شرف الدین نے ایک ٹی وی بحث میں کہا کہ ’این آئی اے برسوں سے پاپولر فرنٹ کی تفتیش کرتی رہی ہے لیکن آج تک وہ ایک بھی ثبوت نہیں پیش کر سکی کہ تنظیم کسی طرح کی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔‘

یاد رہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی سٹوڈنٹ برانچ نے حال ہی میں کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے خلاف مسلم لڑکیوں کے احتجاج میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

حجاب کرناٹک
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی سٹوڈنٹ برانچ نے حال ہی میں کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے خلاف مسلم لڑکیوں کے احتجاج میں اہم کردار ادا کیا تھا

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کب اور کیسے وجود میں آئی؟

پاپولر فرنٹ آف انڈیا خود کو ایک سماجی اور سیاسی تنظیم بتاتی ہے جو مسلمانوں اور دوسرے کمزور طبقوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔

اس تنطیم کی تشکیل کا اعلان سنہ 2007 میں بنگلور میں ایک ریلی میں کیا گیا تھا۔ دراصل اس کی تشکیل کیرالہ کی ایک جماعت نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ، کرناٹک کی تنظیم ’فورم فار ڈگنٹی‘ اور تمل ناڈو کی تنظیم ’منیتھا نیتی پسا رائی‘ کے انضمام سے ہوئی تھی۔

یہ تنظیم اس وقت وجود میں آئی، جب مسلم طلبہ کی ایک تنطیم ’سٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا ‘ پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام کے بعد ملک گیر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا لیکن اس کا سیاسی دھڑا سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا انتحابات میں حصہ لے چکا ہے۔

اس تنظیم نے کرناٹک کے کئی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ حالیہ برسوں میں اس نے دلی، اتر پردیش، بہار، آندھرا، آسام اور تمل ناڈو بھی اپنے قدم جما لیے تھے۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر کیرالہ میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے لیے مسلم نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور انھیں شام میں لڑائی کے لیے بھیجنے کا الزام بھی لگا تھا۔

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی، کرناٹک میں ہندوتوا اور آر ایس ایس کے کئی رہنماؤں کے قتل کے لیے بھی اسی تنظیم کے کارکنوں پر الزام لگاتی رہی ہے۔

اتر پردیش میں سنہ 2020 کی شہریت مخالف تحریک کے دوران بڑے پیمانے پر تخریب کاری کے لیے پی ایف آئی پر الزام لگایا گیا تھا۔ ریاستی حکومت کو شبہ تھا کی اس تحریک کے لیے فنڈنگ اسی تنظیم نے کی تھی۔

حال میں بی جے پی رہنما نوپور شرما کے متنازعہ بیان کے بعد کانپور میں بڑے پیمانے پر ہونے والے تشدد کے سلسلے میں بھی پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے تین کارکن گرفتار کیے گئے تھے۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا اپنے وجود کی ابتدا سے ہی تنازعات کی زد میں رہی ہے۔ اس تنظیم کے خلاف تفتیشی ادارے اور کئی ریاستوں کی پولیس ایک عرصے سے چھان بین کر رہی تھی۔

اس تنظیم کے دفاتر پر اب جس طرح چھاپے مارے گئے اور گرفتاریاں ‏عمل میں آئی ہیں، اس سے واضح ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے ایک عرصے سے اس کی تیاری کر رکھی تھی۔

آنے والے چند دنوں میں یہ معلوم ہو سکے گا کہ اس تنظیم کے گرفتار رہنماؤں پر کس طرح کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *