انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے

انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے

انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟

انڈیا کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے انڈیا میں مسلم آبادی کی تناسب کے بارے میں کئی دعوے کیے ہیں۔

سیتا رمن نے امریکہ کے دورے کے دوران ان باتوں کو مسترد کیا کہ بی جے پی حکومت میں اب مسلمانوں کی حالت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔

ذیل میں ہم نے ان کے کچھ تبصروں کا جائزہ لیا ہے۔

انڈیا دنیا میں دوسرا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک

مسلم آبادی

اس بارے میں یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ مردم شماری کے سرکاری اعداد وشمار پرانے ہیں۔

امریکہ میں قائم پیو ریسرچ سینٹر نے اندازہ لگایا ہے کہ 2020 میں انڈیا انڈونیشیا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہیں جبکہ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ ان کے تخمینے بالترتیب 2011 اور 2017 میں انڈیا اور پاکستان کی آخری مردم شماری پر مبنی ہیں۔

اس کے علاوہ ماہرین نے پاکستان کے مردم شماری کے اعداد و شمار کی قابلِ اعتبار ہونے پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔

پاکستان کی 2017 کی مردم شماری میں، کچھ صوبوں (کراچی، سندھ اور بلوچستان) میں مکمل شماری میں مسائل کی اطلاع دی تھی۔

پیو ریسرچ میں مذہب کے ایک ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کونراڈ ہیکیٹ کہتے ہیں، ’پاکستان کے بارے میں کچھ غیر یقینی صورتحال ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں اب انڈیا کے مقابلے قدرے زیادہ مسلمان ہوں۔‘

مسلمانوں کی آبادی صرف تعداد میں بڑھ رہی ہے

مسلم آبادی

نرملا سیتا رمن درست کہتی ہیں کہ انڈیا کی مسلم آبادی، قطعی تعداد میں بڑھ رہی ہے لیکن انڈیا کی آبادی میں مجموعی طور پر اضافے کے نتیجے میں دیگر تمام مذہبی گروہوں میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

اگر آپ اس کے بجائے شرح نمو پر نظر ڈالیں، یعنی وقت کے ساتھ آبادی کے سائز کے تناسب میں تبدیلی، یہ 1991 سے مسلمانوں کے لیے اور عام آبادی کے لیے بھی کم ہو رہی ہے۔

سنہ 2019 کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بڑے مذہبی گروہوں میں مسلم آبادی میں شرح پیدائش سب سے زیادہ ہے جو کہ بچہ پیدا کرنے کی عمر کی فی عورت پیدائش کی اوسط تعداد ہے۔

لیکن اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اس میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔

درحقیقت مسلمانوں میں آبادی گھٹنے کی شرح ہندوؤں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور یہ 1992 میں 4.4 سے کم ہوکر 2019 میں 2.4 رہ گئی ہے۔

پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا سے تعلق رکھنے والے سنگھمترا سنگھ کا کہنا ہے کہ شرح پیدائش میں تبدیلی سماجی و اقتصادی عوامل سے ہوتی ہے اور اس کا تعلق مذہبی وابستگی سے نہیں ہوتا۔

وہ کہتی ہیں ’فرٹیلیٹی کی شرح میں کمی تعلیم، روزگاراور صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک بہتر رسائی کا نتیجہ ہے۔‘

پھر بھی، کچھ ہندو گروپس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیاست دانوں نے مسلم آبادی میں اضافے کے بارے میں گمراہ کن دعوے جاری رکھے ہوئے ہیں، اور بعض صورتوں میں، ہندوؤں کو زیادہ بچوں کو جنم دینے کا مشورہ بھی دیا جا رہا ہے۔

ماہرین نے بڑے پیمانے پر اس خیال کو مسترد کر دیا ہے کہ آخرکار مسلمان انڈیا میں ہندو اکثریت سے زیادہ ہو سکتے ہیں، جو اس وقت انڈیا کی آبادی کا تقریباً 80 فیصد ہے۔

درحقیقت، خاندانی بہبود کے پروگرام کا جائزہ لینے والی قومی کمیٹی کے سابق چیئرپرسن دیویندر کوٹھاری نے مستقبل کے مختلف منظرنامے کی پیش گوئی کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شرح افزائش میں ریکارڈ کمی کی بنیاد پر، ہندوؤں کی آبادی کا تناسب درحقیقت اگلی مردم شماری میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے بڑھ چکا ہوگا۔

مسلم آبادی

کیا مسلمانوں کی زندگی مشکل ہے؟

یہاں نرملا سیتا رمن نے مسلم اقلیت کے تئیں بڑھتی ہوئی دشمنی کی خبروں کا حوالہ دیا، اور تجویز کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ نہ ہوتا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ انڈین مسلمان کاروبار کرنے، اپنے بچوں کو تعلیم دلانے اور حکومت سے مدد حاصل کرنے کے اہل ہیں۔

اقلیتوں بشمول مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑھتے ہوئے حملوں اور قتل کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے اچھی طرح سے دستاویزی شکل دی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے ’مذہبی اور دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ اپنا منظم امتیازی سلوک اور بدنامی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔‘

مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن آزاد محققین اور تنظیموں نے نفرت پر مبنی جرائم میں اضافے کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔

مسلم آبادی

’پاکستان میں بھی اقلیتیں کم ہوتی جا رہی ہیں‘

نرملا سیتا رمن نے مسلم اکثریتی پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں غیر مسلموں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔

پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، اور 2017 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اقلیتی گروہوں میں ہندو (2.14%)، مسیحی (1.27%) اور احمدی (0.09%) شامل ہیں۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنی ہیں۔

2020 میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ احمدی کمیونٹی پر حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سخت توہین رسالت کے قوانین اور مخصوص احمدی مخالف قوانین کے تحت مقدمہ چلانے کا ایک بڑا ہدف ہے۔

عیسائیوں اور ہندوؤں پر بھی حملے کیے گئے ہیں اور ان پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا ہے۔

پاکستان کے انسانی حقوق کی تنظیم سینٹر فار سوشل جسٹس کے مطابق، 1987 سے فروری 2021 کے درمیان، توہین مذہب کے قوانین کے تحت کم از کم 1,855 افراد پر فرد جرم عائد کی گئی۔

لیکن اس بات کا پتہ لگانے کے لیے حالیہ کافی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ آیا اقلیتوں کی تعداد میں کمی آئی ہے یا ان کا دعویٰ ’ختم‘ ہو گیا ہے۔

ہم نے پہلے 1947 کے بعد پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد میں کمی کے بارے میں بی جے پی کے دعوؤں کو دیکھا ہے، اور معلوم ہوا کہ استعمال کیے گئے اعداد و شمار گمراہ کن تھے کیونکہ ان میں سابق مشرقی پاکستان، جو کہ اب بنگلہ دیش ہے، اس میں رہنے والی اقلیتیں بھی شامل تھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *