انڈیا، نیپال تعلقات نیپالی خواتین کی انڈین فوج

انڈیا، نیپال تعلقات نیپالی خواتین کی انڈین فوج

انڈیا، نیپال تعلقات نیپالی خواتین کی انڈین فوج میں بھرتی کے اشتہار پر نیپال میں ہنگامہ

انڈین فوج میں نیپالی خواتین کی بھرتی کا معاملہ اِن دنوں نیپال میں شہ سرخیوں میں ہے۔

نیپال خواتین کی انڈین فوج میں بھرتی کے معاملے پر گرما گرم بحث اس وقت شروع ہوئی جب نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں انڈین سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ ایک نوکریوں کا اشتہار سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔

اس کے بعد آن لائن میڈیا میں اس اطلاع کی اشاعت ہوئی ہے اور نیپال کے رہنماؤں اور ماہرین نے بھی اس معاملے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔

تاہم بعدازاں انڈین فوج نے ایک ترمیمی بیان جاری کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ انڈین فوج میں ملازمتیں نیپالی خواتین کے لیے نہیں ہیں۔

اشتہار میں کیا تھا؟

انڈین فوج نے 28 مئی کو 100 خواتین کی فوج میں بھرتی کا اعلان کیا تھا۔ اس سے متعلقہ معلومات چار جون کو انڈین فوج کی ویب سائٹ ’جوائن انڈین آرمی‘ پر شیئر کی گئیں۔ اس اشتہار میں درج تعلیمی اہلیت کے خانے میں لکھا تھا کہ ان نوکریوں پر اپلائی کرنے کے لیے تمام گورکھا (نیپالی اور ہندوستانی) کے لیے دسویں پاس ہونا ضروری ہے۔

بھرتی اشتہار کی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ 10 ویں پاس نیپالی خاتون کو بھی انڈین فوج میں نوکری مل سکتی ہے۔

یہ اشتہار نیپال میں اس وقت مزید سرخیوں میں آیا جب اس کا ترجمہ نیپالی زبان میں کیا گیا اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا۔ اسے شیئر کرنے والوں میں بھوپیو پریوار نامی ایک فیس بک پیج بھی شامل ہے۔ اس فیس بک پیج کے ممبر ایسٹ انڈین گورکھا سے تعلق رکھتے ہیں۔

اشتہار
اشتہار میں نبیپالی خاتون کا بھی ذکر ہے

نوٹس میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ نیپالی خواتین بھی اس کے لیے درخواست دینے کی اہل ہیں لیکن تعلیمی قابلیت کی تفصیلات میں دسویں پاس نیپالی گورکھا خواتین کا بھی ذکر ہے۔

بہرحال اب یہ معلومات بھوپو پریوار صفحے سے ہٹا لی گئی ہیں۔ سنیچر کی سہ پہر گوگل سرچ کی ایک تلاش میں یہ بات سامنے آئی کہ گوگل پر یہ معلومات بکثرت موجود تھیں۔

یہ معلومات سوشل میڈیا پر اس وقت وائرل ہونے لگی جب لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس بارے میں لکھنا شروع کیا کہ انڈین فوج نیپالی حکومت کو بتائے بغیر نیپالی خواتین کو اپنی فوج میں بھرتی کر رہی ہے۔

اگرچہ کچھ لوگوں نے اسے نیپالی خواتین کے لیے ایک سنہرے موقع کے طور پر بھی پیش کیا۔

تربیتی مراکز نے اس کی تشہری کی

آن لائن میڈیا اور سوشل میڈیا پر معلومات کے پھیلاؤ کے ساتھ گورکھا رجمنٹ میں نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کے لیے تیار کرنے والے تربیتی مراکز نے بھی اسے مشتہر کیا، تاکہ ان کے پاس تربیت کے لیے آنے والوں کی تعداد بڑھ جائے۔

تربیتی مرکز چلانے والے لوگوں نے بتایا کہ قابل اعتماد فیس بک صفحات اور آن لائن نیوز میڈیا پر آنے والی خبروں کو دیکھ کر انھوں نے اس کی تشہیر کی تھی۔

مغربی نیپال کے علاقے بٹوال میں ’کرش فائر گورکھا ٹریننگ سینٹر‘ کے ڈائریکٹر پون شاہ ٹھاکوری نے بتایا کہ انھوں نے انڈین فوج کی ویب سائٹ پر جا کر یہ اشتہار چیک کیا تھا اور پتا چلا کہ نیپال سے بھی خواتین کو وہاں بھرتی کیا جا سکتا ہے۔

بی بی سی نیوز نیپالی کو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بہت سارے تربیتی مراکز نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں کے ذریعے اس اشتہار کی تشہیر کی۔

سوشل میڈیا پر مخالفت

گورکھا

یہ خبر سامنے آنے کے بعد نیپال میں بھی اس معاملے کی زبردست مخالفت دیکھی گئی اور لوگوں نے کہا کہ یہ انڈیا کا غیر منصفانہ اقدام ہے۔ نیپال حکومت نے بھی یہ کہتے ہوئے احتجاج کیا کہ یہ معاملہ ان کے علم میں نہیں ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یو ایم ایل) کے رہنما اور سابق نائب وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کے عہدوں پر فائز رہنے والے بھیم راول نے ٹویٹ کیا کہ ’انڈیا کا یہ قدم باہمی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔‘

انھوں نے منگل کے روز ٹویٹ کیا کہ ’خودمختار ممالک اپنی فوج میں غیر ملکی شہریوں کی بھرتی نہیں کرتے ہیں۔ یہ نیپالی خواتین کو غلام بنانے کی چال ہے۔ آپ اس چال کو کیوں نہیں سمجھتے؟‘

کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یو ایم ایل) کے رہنما وجے پوڈیل نے ٹویٹ کیا کہ غیر ملکی فوج میں مردوں اور خواتین کی تقرری بند کی جانی چاہیے۔

کچھ لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ نیپال میں ملازمتیں نہیں ہیں اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

انڈین فوج نے غلطی کی اصلاح کی

انڈین آرمی

جب اس معاملے پر نیپال میں مباحثہ بڑھتا گیا تو انڈین فوج نے 28 مئی کو جاری ہونے والی آسامیوں کے اشتہار میں ترمیم کی۔ 15 جون کو کی جانے والی اصلاحات میں واضح کیا گیا کہ صرف انڈیا کے گورکھا اس کے اہل ہوں گے۔

انڈین فوج کے ریٹائرڈ کرنل اور فیڈریشن آف ایکس سروس مین اینڈ پولیس ویلفیئر نیپال کے دھن بہادر تھاپا نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آسامیوں کے اشتہار میں غلطی ہوئی تھی۔ انھوں نے انڈین فوج میں نیپالی خواتین کی تقرری کے معاملے پر لوگوں کے مختلف بیانات پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔

فیڈریشن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسے بیانات دینے سے باز رہیں جس سے انڈیا اور نیپال کے مابین تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔

انڈین حکام کے جواب

بہرحال بی بی سی نیپالی نے اس بارے میں سوال کیا کہ آیا نیپالی خواتین کی انڈین فوج میں تقرری ہو سکتی ہے؟ بی بی سی نیوز نیپالی نے منگل کے روز انڈین وزیر دفاع کے چیف ترجمان اے ایس بھارت بھوشن بابو سے رابطہ کیا۔ انھوں نے ای میل پر سوالات منگوائے لیکن ابھی تک ان کی طرف سے ان سوالوں کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

جب جمعہ کو بی بی سی نے فون کیا تو انھوں نے کہا: ‘فوج کے معاملے پر بات نہیں کر سکتے، فوج نے اس معاملے پر وضاحت پیش کی ہے۔‘

بی بی سی نیوز نیپالی نے انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان، انڈین فوج اور نیپال میں انڈین کے سفارت خانے کو بھی ایک مراسلہ ارسال کیا ہے، لیکن کہیں سے بھی اسے جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

غیر ملکی افواج میں نیپالی خواتین

انڈین فوجی

اب تک نیپال کی خواتین کسی بھی غیر ملکی فوج میں شامل نہیں کی گئی ہیں۔ تاہم نیپالی بولنے والی خواتین جو انڈین اور برطانوی شہری ہیں وہ ان ممالک کی فوج میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

برطانیہ نے سنہ 2020 سے گورکھا کی تقرری میں نیپالی خواتین کو شامل کرنے کے بارے میں اپنا فیصلہ عام کیا تھا۔ نیپال میں برطانوی حکومت کے اس فیصلے کی کافی مخالفت ہوئی۔ پارلیمانی کمیٹی نے نیپال کی وزارت خارجہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس پر عمل درآمد نہ کریں۔

گذشتہ سال نیپال کی وزارت خارجہ نے برطانیہ کو ایک خط لکھ کر سنہ 1947 میں گورکھاز کی تقرری سے متعلق نیپال، ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان سہ فریقی قانون پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ نیپال کی وزارت خارجہ نے اس بارے میں کوئی معلومات شیئر نہیں کی ہیں کہ آیا اس خط کا نیپال کو جواب موصول ہوا یا نہیں۔

کیا انڈیا اور برطانیہ نیپالی خواتین کو بھرتی کر سکتے ہیں؟

فوجیوں کی بھرتی کے بارے میں سہ فریقی معاہدے پر نظرثانی کیے بغیر نہ ہی انڈیا اور نہ ہی برطانیہ نیپال سے خواتین کی کو اپنی اپنی فوج میں بھرتی کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو گذشتہ کچھ برسوں سے نیپال میں زیر بحث رہا ہے۔

مصنف اور وکیل چندرکانت گیوالی کہتے ہیں کہ ’ان معاہدوں میں نیپالی شہریوں کا ذکر ہے۔ سوگولی معاہدے سے لے کر سہ فریقی معاہدے تک نیپالی شہریوں کا ذکر ہے، مردوں اور خواتین میں کوئی تمیز نہیں کی گئی ہے، لیکن اُن دنوں فوج میں خواتین کی تقرری بھی نہیں ہوتی تھی۔‘

چندرکانت گیوالی کے مطابق فوجیوں کی تقرری کے حوالے سے سنجیدہ گفتگو کی ضرورت ہے اور یہ معاہدہ خواتین کو انڈیا اور برطانیہ کی فوج میں شامل ہونے سے نہیں روکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *