اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ریلیف ختم: نئے

اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ریلیف ختم: نئے

اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ریلیف ختم: نئے تجویز کردہ ریٹ کے تحت تنخواہ سے کتنا ٹیکس کٹے گا؟

10 جون 2022 کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو شرحِ ٹیکس میں رعایت دے کر 47 ارب کا ریلیف دیا تھا تاکہ مہنگائی کے دور میں انھیں کچھ ریلیف مل سکے۔۔۔ مگر اب حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں ردو بدل کرتے ہوئے نا صرف 47 ارب کا ریلیف واپس لے لیا ہے بلکہ اس طبقے سے 33 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے۔‘

معاشی امور کے ماہر سینئر صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ ’مہنگائی کے اس دور میں یہ ٹیکس تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈالے گا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب حکومت اگلے مہینے سے پٹرولیم لیوی لگانے جا رہی ہے۔‘

وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 23-2022 میں ٹیکس اقدامات میں جس پر سب سے بحث کی گئی وہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس تھا۔

10 جون 2022 کو وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے جب بجٹ پیش کیا گیا تو اس میں تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ کی حد تو سالانہ چھ لاکھ روپے ہی رہی تاہم چھ سے 12 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کو بھی ایک لحاظ سے چھوٹ دی گئی تھی اور انھیں صرف 100 روپے کا معمولی ٹیکس ادا کرنے کا پابند بنایا گیا۔

وفاقی بجٹ پیش کرنے کے بعد پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جب مذاکرات ہوئے تو اس میں عالمی ادارے کی جانب سے پاکستان کو 7000 ارب روپے سالانہ کے ٹیکس ہدف کی بجائے 7400 ارب روپے سالانہ ٹیکس ہدف مقرر کرنے کا کہا گیا ہے۔

400 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے جہاں حکومت نے کچھ دوسرے اقدامات اٹھائے ہیں جس میں 13 بڑے صعنتی شعبوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگانے کی تجویز ہے تو اس کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح میں ردو بدل کر دیا گیا ہے اور 10 جون کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس سلیب تو سات ہی رہیں گے تاہم ان پر ٹیکس کی شرح کو بڑھا دیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے اضافی 33 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں۔

اس سلسلے میں چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدن والے افراد جنھیں بجٹ میں پیش کی جانے والی تجویز کے مطابق صرف 100 روپے کی معمولی رقم ادا کرنا پڑتی اب ان پر 2.5 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔

فنانس بل 23-2022 میں تنخواہ دار طبقے کے لیے کیا تجویز کیا گیا؟

آئی ایم ایف

10 جون 2022 کو پیش کیے جانے والے فنانس بل کے مطابق انکم ٹیکس کے سلیبز کی تعداد 12 سے کم کر کے سات کر دی گئی تھی۔

پہلے سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں جن کی تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ تک ہے، ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔

دوسرا سلیب ایسے افراد کے بارے میں ہے جن کی سالانہ آمدن چھ لاکھ سے زیادہ مگر 12 لاکھ تک ہے۔ ایسے افراد کو صرف 100 روپے سالانہ ٹیکس ادا کرنا تھا جو بظاہر انھیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش ہے۔

تیسرا سلیب ایسے افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدن 12 لاکھ سے 24 لاکھ تک ہے، ان افراد کے لیے 12 لاکھ سے زیادہ آمدن پر سات فیصد کی فکسڈ شرح سے ٹیکس لاگو کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ تنخواہ 24 لاکھ سے زیادہ اور 36 لاکھ تک ہے، انھیں سالانہ 84 ہزار فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 12.5 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

پانچواں سلیب 36 لاکھ سے 60 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں دو لاکھ 34 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 36 لاکھ سے زیادہ آمدن پر ساڑھے 17 فیصد ٹیکس دینے کی تجویز دی گئی تھی۔

گذشتہ فنانس بل میں 60 لاکھ سے زیادہ آمدن والوں کے لیے ایک ہی سلیب رکھا گیا تھا، تاہم اس فنانس بل میں اسے تبدیل کر دیا گیا ہے۔

چھٹا سلیب 60 لاکھ سے ایک کروڑ 20 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں چھ لاکھ 54 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 60 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 22.5 فیصد ٹیکس ادا کرنے کی تجویز تھی۔

ساتواں اور آخری سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدن ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہے، انھیں 20 لاکھ چار ہزار فکسڈ ٹیکس جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 32.5 فیصد ٹیکس ادا کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

تنخواہ دار طبقے پر نئی تجویز کردہ ٹیکس شرح کیا ہے؟

ٹیکس

آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اضافی ٹیکس اکٹھے کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی نئی شرح تجویز کی گئی ہے تاہم سلیب کی تعداد سات ہی رکھی گئی ہے۔

پہلے سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں جن کی تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ تک ہے، ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔

دوسرا سلیب ایسے افراد کے بارے میں ہے جن کی سالانہ آمدن چھ لاکھ سے زیادہ مگر 12 لاکھ تک ہے۔ ایسے افراد کو 2.5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

سالانہ 12 لاکھ سے 24 لاکھ کی آمدن پر 15000 فکسڈ ٹیکس کے علاوہ 12.5 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا جو 12 لاکھ سے زائد کی آمدن پر لگے گا۔

چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ تنخواہ 24 لاکھ سے زیادہ اور 36 لاکھ تک ہے، انھیں سالانہ 165000 فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 20 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

پانچواں سلیب 36 لاکھ سے 60 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں چار لاکھ 5 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 36 لاکھ سے زیادہ آمدن پر ساڑھے 25 فیصد ٹیکس دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

چھٹا سلیب 60 لاکھ سے ایک کروڑ 20 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں اب 10 لاکھ 5 ہزار سے فکسڈ ٹیکس اور 60 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 32.5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

ساتواں اور آخری سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ آمدن ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہے، انھیں اب 29 لاکھ 55 ہزار فکسڈ ٹیکس جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ آمدن پر35 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

ںئی ٹیکس شرح تنخواہ دار طبقے پر کیسے بوجھ ڈالے گی؟

خاتون

حکومت کی جانب سے تنخودار طبقے کی ٹیکس کی نئی شرح کی تجویز کو ترمیم شدہ فنانس بل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ معاشی امور کے سینئر صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ 10 جون 2022 کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں حکومت تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس شرح میں رعایت دے کر انھیں 47 ارب کا ریلیف دیا تھا تاکہ مہنگائی کے دور میں انھیں کچھ ریلیف مل سکے۔

’تاہم اب آئی ایم ایف کے مطالبے پر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں جو ردو بدل کیا گیا ہے اس کے بعد نا صرف 47 ارب کا ریلیف واپس لے لیا گیا ہے بلکہ اس طبقے سے 33 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے جو مہنگائی کے اس دور میں ان میں مزید بوجھ ڈالے گا جب حکومت اگلے مہینے سے پٹرولیم لیوی لگانے جا رہی ہے۔‘

کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابقہ صدر اور ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے نئے ٹیکس سلیب اس طبقے کے لیے بہت زیادہ مالی مشکلات پیدا کرے گا جو ’مجبور ایماندار ٹیکس ادا کرنے والا‘ طبقہ ہے کیونکہ اس کی تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے ان کا ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔

مرچنٹ نے کہا ’پہلے اس طبقے کو ٹیکس کریڈٹ کی صورت میں کچھ ریلیف دیا جاتا تھا لیکن موجودہ حکومت نے وہ ریلیف ہی واپس لیے لیا۔‘ انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی تنخواہ دار شخص کہیں سرمایہ کاری کرتا اور اس پر ٹیکس ادا کر رہا ہوتا تو وہ اپنے مالک کو وہ ٹیکس دکھا کر اپنی تنخواہ سے کٹنے والے ٹیکس کو کم کروا سکتا تھا تاہم موجودہ حکومت نے اب وہ ٹیکس کریڈٹ بھی ختم کر دیا ہے۔

مرچںٹ نے کہا کہ ٹیکس کی نئی شرح سے تنخواہ دار طبقے کی قوت خرید کم ہو گی جو ان کے لیے مزید مالی مشکلات پیدا کرے گا۔ ان کے مطابق دنیا میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح کافی زیادہ ہے خاص کر ترقی یافتہ ممالک میں تاہم وہاں پر انھیں تعلیم، صحت اور تحفظ کی سہولیات حاصل ہوتی ہیں اس لیے وہاں ٹیکس کی شرح کے زیادہ ہونے سے ان کی قوت خرید پر زیادہ اثر نہیں پڑتا۔

پرسنل ٹیکس کیا ہے؟

آئی ایم ایف کی جانب سے پرسنل انکم ٹیکس میں اصلاحات کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ پرسنل انکم ٹیکس پر بات کرتے ہوئے ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بتایا کہ اس سے مراد تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح کو بڑھانا ہے۔

ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ ‘پرسنل ٹیکس میں اصلاحات سے مراد یہی ہے کہ آئی ایم ایف زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے افراد پر ٹیکس میں اضافہ چاہتا ہے۔’

واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے تنخواہ دار طبقے سے زیادہ ٹیکس وصولی کا مطالبہ نیا نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی یہ مطالبہ کیا جا چکا ہے تاہم سابقہ حکومت کی جانب سے اس مطالبے پر رضامندی ظاہر نہیں کی گئی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *