اسرائیل کے غیر فیصلہ کن نتائج کے بعد کیا ایک عرب

اسرائیل کے غیر فیصلہ کن نتائج کے بعد کیا ایک عرب

اسرائیل کے غیر فیصلہ کن نتائج کے بعد کیا ایک عرب جماعت ’کِنگ میکر‘ ثابت ہوگی؟

گذشتہ ہفتے اسرائیل کے عام انتخابات میں فیصلہ کن نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد وزیراعظم بنیامین نتن یاہو اور ان کے مخالفین ایک ایسی غیر معمولی پوزیشن میں پھنس گئے ہیں کہ دونوں کو اتحادی حکومت بنانے کے لیے ایک عرب پارٹی کی حمایت حاصل کرنا پڑ رہی ہے جس کی پشت پناہی حکمران اتحاد کے قیام کے لیے ضروری نظر آرہی ہے۔

انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد نتن یاہو اور ان کے اتحادی اور نہ ہی ان کے حریف 120 رکنی پارلیمان میں اکثریت حاصل کر سکیں ہیں۔ دونوں فریق پارلیمان میں اتنے حامی اکٹھے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حکومت بنانے کے لیے ریاست کے صدر کی منظوری حاصل کر سکیں۔

اہم سوئنگ سیٹیں یونائیٹڈ عرب لسٹ کے زیر کنٹرول ہیں، یہ ایک عرب جماعت ہے جس کے رہنما منصور عباس نے کسی بھی فریق سے وابستہ ظاہر نہیں کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی یہ پوزیشن اسرائیلی عرب برادریوں میں پرتشدد جرائم اور تعمیرات پر پابندی جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔

مدد کی تلاش

عباس کی جماعت کی چار نشستیں نتن یاہو کے مخالفین کو پارلیمنٹ میں اکثریت دے سکتی ہیں جس کے بعد وہ وزیر اعظم کو بے دخل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ وہ نتن یاہو کی حمایت بھی کر سکتے ہیں تاکہ وہ پارلیمان میں مطلوبہ حمایت کے ساتھ ایک نیا اتحاد تشکیل دے سکیں۔

نتن یاہو کو ایک دائیں بازو کی جماعت یمینا کی حمایت کی بھی ضرورت ہوگی، جس کے رہنما نفتالی بینیٹ نے بھی ابھی تک حمایت کی کوئی حامی نہیں بھری ہے، حالانکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قوی امکان ہے کہ وہ وزیر اعظم کے ساتھ دائیں بازو اتحاد میں شامل ہو جائیں گے۔

انتخابات کے بعد عباس نے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ ان میں شامل ایک رہنما یائر لیپڈ ہیں جو نتن یاہو مخالف اتحاد کے لیے حامی تلاش کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ انھوں نے نتن یاہو کی دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی ہے۔

لیکوڈ کے عہدے داروں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ عباس اور ان کی جماعت کے ساتھ کام کر سکتے ہیں، جو کہ انتخابی مہم کے دوران نتن یاہو کے اس بیان سے بہت مختلف ہے جس میں انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس دھڑے کی حمایت پر منحصر اتحاد تشکیل نہیں دیں گے۔

یائر لیپڈ، جو کہ حزبِ اختلاف کے رہنما ہیں، ایک عرب جماعت، جوائنٹ لسٹ، کے نمائندوں سے بھی مل چکے ہیں۔ عباس اس جماعت سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ جوائنٹ لسٹ نتن یاہو کی شدید مخالف ہے اور اس کی چھ نشستیں حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

اگر کوئی بھی اتحاد بنانے میں کامیاب نہیں ہوتا تو ملک میں 2019 کے بعد سے اب تک کے عرصے میں پانچویں عام انتخابات ہو سکتے ہیں۔

ایک مختلف نقطۂ نظر

مسلمان عربوں کی جماعت یونائیٹڈ عرب پارٹی کے رہنما منصور عباس حکومت بنانے میں ایک ممکنہ ’کِنگ میکر‘ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کی اس اہمیت کی وجہ ان کا مختلف نقطۂ نظر ہے جس نے اسرائیلی سیاست میں عربوں کی شمولیت کو ایک مختلف رنگ دیا ہے۔

عباس کہتے ہیں کہ ان کا تعلق نہ تو دائیں بازو سے ہے اور نہ بائیں بازو سے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہم ایک دور دراز کونے میں ہیں اور پرے بیٹھے ہیں۔ آج کم از کم یونائیٹڈ عرب لسٹ سیاسی نظام کو چیلنج کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ دوستو، ہم موجود ہیں، ہم یہاں ہیں۔ جو بھی ہم سے رابطہ کرنا چاہتا ہے، اسے خوش آمدید۔‘

منصور عباس نے جنوری 2021 میں سیاسی اتحاد جوائنٹ عرب لِسٹ پارٹی سے علیحدہ ہو کر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ منصور عباس اسرائیلی عربوں کے حقوق کے لیے نتن یاہو کی حکومت سے تعاون پر اتفاق کرتے ہیں اور اس پر جوائنٹ عرب لسٹ کے ساتھ عدم اتفاق کی وجہ سے وہ اتحاد سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ جوائنٹ عرب لسٹ پہلے ہی موجودہ اپوزیشن کے حق میں ہے لیکن عباس کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی پر کسی امیدوار یا اتحاد کے حوالے سے ’کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘۔

اسرائیلی عرب ملک کی کل آبادی کا 20 فیصد ہیں۔

منصور عباس کون ہیں؟

منصور عباس

منصور عباس ایک ’کنگ میکر‘ کے طور پر ابھرے ہیں اور دونوں بڑی جماعتوں کو ان کی مدد درکار ہے

منصور عباس 22 اپریل 1974 کو شمالی اسرائیل کے علاقے میگر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی سے ڈینٹِسٹری کی ڈگری حاصل کی اور آج کل حائفہ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔

منصور عباس شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بچے ہیں۔

وہ اسلامک موومنٹ اِن اسرائیل کی جنوبی شاخ کے نائب چئیرمین بھی ہیں۔ وہ انتخابات سے قبل پارلیمان کے نائب سپیکر تھے۔

انھیں 2019 میں یونائیٹڈ عرب لسٹ کا لیڈر مقرر کیا گیا تھا پھر یہ جماعت دی جوائنٹ عرب لسٹ نامی اتحاد میں شامل ہوئی اور وہ گذشتہ انتخابات میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

عباس اس سے پہلے پارلیمان میں نتن یاہو کی حکومت کے ساتھ بعض معاملات میں تعاون کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اسرائیلی عرب شہریوں کے حق میں کام کرے گی تو وہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اسرائیلی عرب شہری ایک طویل عرصے سے سرکاری سطح پر امتیاز کی شکایت کرتے آئے ہیں۔

’جو ہمیں خارج کرے گا میں اسے خارج کر دوں گا‘

اسرائیلی عرب ملک کی کل آبادی کا 20 فیصد ہیں
اسرائیلی عرب ملک کی کل آبادی کا 20 فیصد ہیں

23 مارچ کو ہیراٹز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’ہماری کسی اتحاد یا امیداوار کی جانب کوئی ذمہ داری نہیں ہے، اور نہ ہی ہم کسی کی جیب میں ہیں، نہ دائیں اور نہ ہی بائیں بازو کی۔۔۔ میں کسی کے ساتھ اتحاد کو خارج نہیں کر رہا ہوں۔۔۔ لیکن جو ہمیں خارج کرے گا میں اسے خارج کر دوں گا۔‘

اسرائیل کے بحرین اور متحدہ عرب امارت سے امن معاہدوں کے بعد اپنے ردعمل میں انھوں نے کہا تھا کہ ’حقیقی امن فلسطین پر قبضہ ختم کر کے اور فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی آسکتا ہے۔‘

نتن یاہو کا موقف

نتن ہاہو اور ان کی بیوی سارا
نتن ہاہو اپنی بیوی سارا کے ہمراہ 24 مارچ کو انتخابات کے خاتمے کے بعد اپنی حامیوں سے خطاب کے دوران

انتخابات سے پہلے ایک انٹرویو میں وزیراعظم نتن یاہو منصور عباس کی جماعت کی حمایت سے حکومت بنانے کے امکان کو خارج کر چکے ہیں۔

انھوں نے کہا تھا ’میں وعدہ کرتا ہوں ایسا نہیں ہوگا۔ میں ان پر انحصار کروں گا نہ ہی ان کو شامل کروں گا۔۔۔ وہ صيہونيت مخالف جماعت ہے۔‘

بحرین اور متحدہ عرب امارت کے ساتھ امن معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’میرے لیے یی غیر یقینی ہے کہ میں نے عرب ممالک کے ساتھ جو امن معاہدہ کیا عباس نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔‘

منصور عباس کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اسرائیلی چینل 12 سے بات کرتے ہوئے انھوں نے فلسطینی قیدیوں سے ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’شدت پسندوں‘ سے نہیں ملے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *