احمد شاہ بہادر وہ مغل شہنشاہ جس کی حکومت ایک خواجہ

احمد شاہ بہادر وہ مغل شہنشاہ جس کی حکومت ایک خواجہ

احمد شاہ بہادر وہ مغل شہنشاہ جس کی حکومت ایک خواجہ سرا نے چلائی

مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا خود سے پہلے تین صاحبان اقتدار کی طرح کمزورحکمران تھے۔ ان کی وفات 1748 میں ہوئی تو ان کے اکلوتے بیٹے احمد شاہ بہادر مجاہد العین ابو نصر 22 سال کی عمر میں تخت نشیں ہوئے۔

ایورٹ جینکنز کے مطابق محمد شاہ نے کابل نادر شاہ اور کٹیہر روہیلہ کے ہاتھوں گنوایا تھا۔ کئی دیگر صوبے آزاد ریاستیں بن گئے تھے۔ احمد شاہ، جنھیں صفدر جنگ کی سربراہی میں مغل امرا کی ایک جماعت نے تخت پر بٹھایا تھا، جوانی کے باوجود اپنے والد سے زیادہ مضبوط نہ تھے۔

اقتدار یا جنگ کے لیے احمد شاہ کی تعلیم ہوئی تھی نہ تربیت، ہوتی بھی کیسے؟

مورخ جادو ناتھ سرکار اپنی کتاب ’مغلیہ سلطنت کا زوال‘ میں لکھتے ہیں کہ شکی مزاج اور کنجوس والد نے انھیں دلی محل کے ایک کونے تک محدود رکھا۔ وہ حرم کی خواتین، عدم توجہی، عسرت اور والد کی ڈانٹ ڈپٹ میں بڑے ہوئے۔

انھوں نے خود سے پہلے تخت کے ورثا کی طرح کسی فوج کی کمان نہیں سنبھالی تھی۔ انھیں نہ تو اتنا وظیفہ ملتا کہ عمومی راحتوں میں رہ سکیں نہ انھوں نے چوگان (پولو)، جانوروں کی لڑائیوں اور شکار جیسے شہزادوں کے کھیل کھیلے۔ یوں بڑے ہونے پر وہ ’کند ذہن، نرم خو، بے وقوف نکلے۔ اپنی شخصیت تو تھی نہیں، کوئی اور جیسے اور جدھر چاہے ہانک سکتا تھا۔‘

سرکار کے مطابق مادر ملکہ ادھم بائی عوامی رقاصہ تھیں جب انھیں احمد شاہ کے والد محمد شاہ سے متعارف کروایا گیا۔ شہنشاہ کو وہ اتنی بھائیں کہ انھیں ملکہ بنا لیا لیکن انھوں نے اپنے اطوار نہ بدلے اور اپنے بیٹے احمد شاہ کے تخت نشین ہونے کو دربار میں اپنی بڑائی جتانے اور پیسہ سمیٹنے کا موقع جانا۔

تاریخ دان جسونت لال مہتا کے مطابق ادھم بائی کو یقین تھا کہ اگر مغل ہندوستان کو چلنا ہے تو خوش خو مگر کاہل احمد شاہ کے ساتھ ساتھ کسی اور کو اقتدار سنبھالنا ہو گا اور وہ خود وہی ہیں۔ ادھم بائی کے لیے یہ مشکل نہ تھا۔

سرکار کہتے ہیں بائی میں حکومت چلانے یا اس کے لیے اہل افراد چننے کی صلاحیت تو نہیں تھی لیکن نور جہاں کی طرح ریاستی امور خود چلانا چاہے۔ ’ہر روز اعلیٰ عمال ان کی ڈیوڑھی میں بیٹھتے اور وہ پردے کے پیچھے سے (خواجہ سراؤں کے ذریعے) ان سے بات چیت کرتیں، درخواستیں (مطالب) اور خطوط حرم میں انھیں پڑھ کر سنائے جاتے اور وہ ان پر حکم جاری کرتیں، جو حتمی ہوتے۔‘

احمد شاہ کی والدہ کے اپنے ذاتی ملازم جاوید خان، جو نوجوان اور وجیہہ خواجہ سرا تھے اور طاقتور شخصیت کے مالک تھے، سے قریبی تعلقات رہے۔ شاہی وقار میں تب کمی آئی جب خواجہ سرا جاوید خان دیرینہ شاہی قواعد کے برعکس شاہی حرم میں راتیں بھی گزارنے لگے۔

محمد شاہ کا مقبرہ
محمد شاہ کا مقبرہ

خواجہ سرا جاوید خان کے عروج کی کہانی

جاوید خان محمد شاہ کے دور میں حرم کے ملازمین کے نائب منتظم اور بیگمات کی جائیدادوں کے منتظم رہ چکے تھے۔ وہ ادھم بائی کے خاوند کی وفات سے پہلے ہی ان کے ذہن اور جسم پر قابض ہو چکے تھے۔ بائی کے بیٹے احمد شاہ کے تخت سنبھالنے پر جاوید کی ترقی کی رفتار تیز ہو گئی۔ انھیں چھ ہزاری دے دی گئی مگر اس ڈر سے کہ زیادہ باتیں نہ بنیں اورنگزیب کے دور سے چلے آئے جاوید خان کے آقا روز افزوں خان پر بھی یہ عنایت کر دی گئی۔ وہ تب تک جوڑوں کے درد میں مبتلا ہونے کے باعث چل پھر نہیں سکتے تھے۔

اقتدار ہاتھ آیا تو عیش و نشاط کا ساماں کرنے والوں میں گھِر گئے اور شہنشاہ تو اقتدار اور سماج کی ذمہ داریوں سے صرفِ نظر کیے جیسے اس سب کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ میجر پولیئر نے 1777 میں دلی سے لکھا کہ شہزادہ احمد نے تخت نشین ہونے کے بعد، ’خود کو مکمل طور پر شراب، بھنگ، چرس اور دیگر نشہ آور شرابوں میں غرق کردیا تھا۔‘

احمد شاہ نے انصرام عملی طور پر جاوید خان کے حوالے کر دیا اور کھلے عام تمام مسائل اس خواجہ سرا کو فیصلہ کے لیے بھیجتے۔ خود روک ٹوک کے بغیر جنسی لذت میں ڈوب جاتے۔ ادھر جاوید خان اس پیاسے نوجوان کی شراب نوشی کی حوصلہ افزائی کرتے اور حرم کو عورتوں سے بھرتے۔ ان عورتوں کے ساتھ مرد بھی آئے جن کا واحد مقصد عیش کوشی کی داد تھا۔

انھوں نے لکھا ہے کہ رفتہ رفتہ شہنشاہ کا ذہن (صرف) فحش مزاج افراد کی صحبت میں رہنے کو مائل ہو گیا۔

تاریخ احمد شاہی میں لکھا ہے کہ جاوید کو 19 جولائی 1748 کو دیوان خاص کا منتظم بنا دیا گیا۔ بادشاہ کے دربار میں حاضری ان کے ہاتھوں میں آ گئی اور وہ مخلص مشیروں کو شہنشاہ سے ملنے کی اجازت نہ دے کر اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے چلے گئے۔

درباری مورخ شاکر خان کے مطابق انھیں جاسوسی کا محکمہ، شاہی ہاتھی، انعامات اور تقرر (عرض مقرر)، بیگمات کی جائیدادوں اور شہنشاہ کے خزانہ خاص کا بھی نگراں بنا دیا گیا۔ انھیں سات ہزاری منصب اور نواب بہادر (شہنشاہ کے نائب) کے خطاب کے ساتھ ماہی مراتب، خلعت اور پالکی سے بھی نوازا گیا۔

احمد شاہ بہادر

بادشاہ تاج کے موروثی وفاداروں سے دور ہوتے گئے

سرکار کا کہنا ہے کہ جاوید خان اب جنگ اور امن، محصولات اور تنظیم کے فیصلے کر رہے تھے۔ ان کا واحد مقصد شہنشاہ اور ملکہ کو خوش رکھتے ہوئے اعلیٰ ترین طاقت اور اس کے ذریعے دولت و ثروت کا حصول تھا۔ انھوں نے اپنے لیے منافع بخش جاگیریں اور ان سے آنے والے محصولات کو شہنشاہ اور فوج کی بجائے اپنے لیے مخصوص رکھا۔ شہنشاہ کے سامنے لوگوں کی سفارش سے بھی وہ لاکھوں کماتے۔

تاریخ احمد شاہی کے مطابق جب شہنشاہ ان کے معاملات کو جاوید کے تابع کرتے تو امرا کو یہ بات بہت کھلتی تھی۔ اس نفرت کے جواب میں جاوید ان سے بے اعتناعی برتتے اور درمیانے درجے کے امرا کو زیادہ عزت اور عہدے دیتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بادشاہ تاج کے موروثی وفاداروں سے دور ہوتے گئے۔

اخلاقی انحطاط کی رفتار بڑھتی گئی اور احمد شاہ کے اقتدارکے دوسرے سال کے اختتام پر ’انتظام و انصرام کمزور ہو چکا تھا، ریاست کے ستون ہر روز متزلزل ہوتے تھے۔ شہنشاہ نہ کبھی اپنی مملکت کا پوچھتے نہ سپاہ کا، نہ خزانے کا۔‘

جاوید خان، جو تمام امورِ ریاست پر قابض تھے، اپنی فطری استعداد کے مطابق انھیں چلاتے اور شہنشاہ کو یقین دلاتے کہ سب کچھ قواعد کے مطابق ہو رہا ہے تاکہ شہنشاہ کچھ ایسے امور سے بھی ہاتھ کھینچ لیں جن پر ان کی پہلے نظر تھی۔ شہنشاہ لذت میں ایسے مگن ہوئے کہ پورا ایک کوس (چار مربع میل پر محیط) علاقہ خواتین کے لیے مخصوص کردیا اور شہنشاہ اس آرام گاہ میں ان کی صحبت میں ایک ہفتہ یا ایک مہینہ تک گزار دیتے۔

تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے شاہی سامان بیچنا پڑا

بات اتنی بڑھی کہ شاہی دربانوں، جنھیں ایک سال سے زیادہ عرصے سے تنخواہیں نہیں ملی تھیں اور نہ ہی شہنشاہ یا ان کے کسی منتظم نے ان کی داد رسی کی تھی، نے ایک منظر ترتیب دیا۔ انھوں نے شاہی دربار کے صدر دروازے پر ایک گدھے اور ایک کتیا کو باندھا اور جب امرا اور دیگر درباری دربار میں حاضری کو آئے تو انھوں نے ان سے کہا ’پہلے آپ ان کے سامنے جھکیں۔ گدھے کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ نواب بہادر ہیں اور وہ (کتیا) حضرت قدسیہ، مادر ملکہ۔‘

ایک بار سپاہی اپنے واجبات کے لیے روز آواز بلند کر رہے تھے اور حکومت شاہی سامان بیچ کر مشکل سے دو لاکھ اکٹھا کر پائی۔

شاہی مورخ شاکر خان یوں بیان کرتے ہیں: ’شاہی سامان، اسلحے، قالینوں، کھانا پکانے کے برتنوں، کھانے کے برتنوں، کتابوں اور آلات کی بیانیہ فہرست بنائی گئی اور یہ چیزیں دکان داروں اور پھیری والوں کو بیچی اور حاصل ہونے والی رقم سے سپاہیوں کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔ اس سے عوام میں وہ ٹھٹھا اڑا کہ بیان کے قابل نہیں۔‘

قدسیہ بیگم

احمد شاہ کا شہنشاہیت کا کھیل، تین سال کا بچہ گورنر پنجاب

شہنشاہ جنسی لذت کی زیادتی سے بیزار ہوتے تو شہنشاہیت کے بچگانہ کھیلوں سے دھیان بٹاتے۔ مثال کے طور پر ایک روز فروری 1753 میں اپنے شیر خوار بیٹے محمود شاہ کو اپنے ساتھ سلامی کے جھروکے کے نیچے نرگس کے پھولوں میں لے گئے۔

تمام امرا اور درباریوں کے بیٹوں کو بلاوا بھیجا کہ وہ شہزادے کو نذرانے پیش کریں اور ان کے پیچھے چلیں۔ پھر بچے کو مادر ملکہ اور ملکہ زمانی کے جھروکوں کے سامنے لے گئے تاکہ وہ شہنشاہ کی طرح انھیں باہر سے سلام پیش کریں۔

پھر بچے کو اس کے لیے ایک نئے بنائے گئے چھوٹے خیمے میں شاہی مسند پر بٹھایا اور امرا کے بچوں کو اس کے اردگرد کھڑے ہونے کے لیے بھیجا اور خود بچوں کے اس دربار کے دورے کو گئے۔

خواجہ سراؤں نے راستے میں شہنشاہ کا استقبال کیا اور اپنے آقا کی جانب سے انھیں تحائف دیے۔ شہنشاہ نے اسی بچے کو تین سال کی عمر میں پنجاب کا گورنر بنا دیا اور کھیل ہی کی طرح ایک سال کے ایک بچے کو اس کا نائب مقرر کردیا جس کے لیے سونے کے تاروں کے بنے بچوں کے کپڑے لاہور بھیجے گئے۔

دوسری جانب خطرہ تھا کہ احمد شاہ ابدالی کے جنرل جہان خان کشمیر پر حملہ کریں گے مگر وہاں ایک سالہ شہزادہ طالع سعید شاہ کو صوبے دار مقرر کردیا اور ایک اور پندرہ سالہ لڑکے کو نائب۔

تاریخ دان جسونت لال مہتا کہتے ہیں کہ ’احمد شاہ حکمران کے طور پر یوں کہیے کہ تھے ہی نہیں۔ اپنے والدین کی مثال تھے، حکومت چلانے کی نہ تعلیم تھی نہ تربیت۔ بدچلنی کو شعار کیا اور زیادہ وقت بُری صحبت میں گزارتے جس سے شہنشاہیت کا تصور اور مجروح ہوا۔‘

تاریخ احمد شاہی میں لکھا ہے کہ شہنشاہ کو غصہ کبھی کبھار آتا اور وہ بھی لفظوں کی حد تک۔

فوجی روح اور فوج کی سربراہی کی صلاحیت تو درکنار ذاتی جرات بھی نہیں تھی۔ شاہی فوج جھروکے کے نیچے درخواست کرتی کہ کھوئے ہوئے صوبوں کو واپس لینے کی مہمات میں ان کی سربراہی کریں تاکہ دلی خزانے میں پھر سے محصولات آئیں اور بھوک سے مرتے سپاہیوں اور شاہی خدام کو ان کی تنخواہ کے دیرینہ واجبات مل سکیں۔

لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوتے۔ مراٹھوں (مرہٹوں) کی صرف پیش قدمی پر خاندان کی عورتوں کو قید اور ممکنہ عصمت دری کے خطرے سے دوچار کرتے سکندر آباد سے خوف میں فرار سے ہندوستان کی تاریخ میں ان کا نام ذلت سے جڑ گیا۔

جاوید خان اور صفدر جنگ

جاوید خان نے ریاستی امور میں ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو دیگر امرا کی مخالفت اور ان کے حسد کا سامنا ہوا۔ جاوید خان کے مدمقابل جلد ہی صفدر جنگ اور دوسرے امرا تھے۔

شہنشاہ اور ان کی والدہ نے جاوید خان کا حوصلہ بڑھایا کہ وہ شاہی طاقت کے قابضین کے خلاف سخت موقف اختیار کریں اور انھیں ان کے چنگل سے آزاد کریں۔

دلی میں صفدر جنگ کا مقبرہ
دلی میں صفدر جنگ کا مقبرہ

جاوید خان کو گھریلو ملازموں، خاص طور پر حرم کی خواتین اور خواجہ سراؤں اور چھوٹے خدمت گاروں کا ساتھ میسر تھا۔ یہی ان کے خفیہ کارندے اور سازش کے کردار بنے۔

انھوں نے نومبر 1748 میں صفدر جنگ کو مارنے کی پہلی ناکام کوشش کی۔ نواب وزیر اس کوشش سے ایسے ڈرے کہ دربار میں حاضری دینا موقوف کردیا۔ شاہی خواجہ سراؤں اور مغل امرا کی چپقلش زبان زدعام ہوئی تو امن عامہ کے مسائل پیدا ہوئے اور شہری انتظامیہ مفلوج ہوگئی۔

ہندوستان پر احمد شاہ ابدالی کے حملوں کی ابتدا

شہنشاہ کے ہم نام احمد شاہ ابدالی 1747 سے افغانستان کے حکمران تھے۔ انھوں نے ہندوستان پر حملوں کی ابتدا کی اور یوں حالات اور بگڑے۔

پنجاب یا لاہور کے مغل گورنر میر منو نے دلی سے مدد کی درخواستیں کیں مگر نہ ملی اور انھیں حملہ آور کی اطاعت قبول کرنا پڑی۔ ابدالی کے حملوں سے جرات پاتے گنگا وادی کے دو افغان قبیلوں روہیلہ اور بنگش پٹھانوں نے دلی کے خلاف بغاوت کردی۔

انھوں نے پاس کے علاقے اودھ میں لوٹ مار کی۔ چونکہ اودھ صفدر جنگ کی طاقت کی بنیاد تھا، انھیں دارالحکومت چھوڑ کر اپنی تمام فوج کے ساتھ بغاوت دبانے کے لیے جانا پڑا۔

اس وقت تمام گنگا وادی اور مرکزی ہندوستان میں مراٹھا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ صفدر جنگ نے چالاکی سے مراٹھوں کے مطالبات مان کر ان سے تعلقات اچھے کر لیے اور ان کی مدد سے روہیلہ اور بنگش پٹھانوں کی بغاوت کو کچل ڈالا۔ اسی اثنا میں ابدالی نے پنجاب پر تیسری بار حملہ کردیا۔ میر منو کو شکست ہوئی اور لاہور ابدالی کا ہوا۔

مغلیہ تخت کی حفاظت کے لیے مراٹھیوں سے معاہدہ

مغل شہنشاہ کو ان خبروں پر بہت تشویش ہوئی۔ ’خوف میں‘ انھوں نے اپنے وزیر کو دلی کی حفاظت کے لیے اودھ سے بلا بھیجا اور ان سے کہا کہ وہ اپنے مراٹھا اتحادیوں کو بھی ’بیرونی حملہ آور سے لڑنے کے لیے‘ ساتھ ہی لیتے آئیں۔

صفدر جنگ نے دو مراٹھا سرداروں ملھاراو ہولکر اور جیپا سندھیا سے دلی کے دفاع کے لیے مغل شہنشاہ کی طرف سے ’معاہدہ‘ کیا۔ معاہدے کی رو سے پیشوا بالاجی باجی راؤ کی جانب سے مراٹھوں نے پایہ تخت اور مغل شہنشاہت کو احمد شاہ ابدالی سمیت دشمنوں سے بچانے کا معاہدہ کیا۔

بدلے میں انھیں شہنشاہ سے پچاس لاکھ روپے ملنا تھے اور ساتھ ہی ساتھ پنجاب اور سندھ سے چوتھ (محصول کا چوتھا حصہ) اور اجمیر اور آگرہ میں پیشوا کا گورنر کے طور پر تقرر، بشمول ناگپور اور متھرا کی فوج داری کا وعدہ بھی کیا گیا۔

صفدر جنگ کو لگ بھگ تین سال کے دوران دوبار روہیل کھنڈ میں رہنا پڑا۔ اس دوران جاوید خان نے سازش کے تحت ان کے ساتھی میر بخشی صلابت خان کو عہدے سے فارغ کروا دیا اور انھوں نے باقی زندگی درویش کی طرح گزاری۔ پھر صفدر جنگ کے بعد سب سے بڑے دو عہدوں پر اپنے لوگ بٹھا دیے۔ غازی الدین خان کو امیرالامرا کے خطاب کے ساتھ آگرہ کا اور ان کے برادر نسبتی انتظام الدولہ خان خاناں کے خطاب کے ساتھ اجمیر کا صوبے دار بنوا دیا۔

صفدر جنگ 5 مئی 1752 کو دلی لوٹے تو ساتھ پچاس ہزار مراٹھا فوج تھی لیکن انھیں جان کر اچنبھا ہوا کہ شہنشاہ لاہور اور ملتان کے صوبے حملہ آور کو اس کے قندھار واپس جانے سے پہلے ہی دے چکے تھے۔ ایسا شہنشاہ نے جاوید خان کے مشورہ سے کیا تھا جو وزیر کی عدم موجودگی میں ان کے مشیر اعلیٰ بن چکے تھے۔

طاقتور وزیر کے لیے یہ سب ہضم کرنا مشکل ہوا اور انھوں نے خواجہ سراؤں کے سربراہ کو ختم کرنے اور کٹھ پتلی شہنشاہ کے پر کاٹنے کا فیصلہ کیا۔

احمد شاہ

’اپنی غداری کا مزہ چکھ لو‘

دو جولائی 1752 کو صفدر جنگ جمنا کے پار اپنے خیمے سے دلی شہر میں اپنی حویلی جانے کو نکلے۔ جاوید خان نے محل سے نکل کر انگوری باغ قیام کیا تاکہ صفدر جنگ راستے میں ان کے پاس آ کر تعظیم پیش کریں گے۔

مگر صفدر جنگ نے ایسا نہ کیا۔ جاوید نے اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے دلی کے ایک محصول اکٹھا کرنے والے چودھری کے بیٹے بالو جاٹ کو بلوایا، انھیں خلعت عطا کی۔ انھیں کیا ہدایات دی گئی ہوں گی ان واقعات سے پتا چلتا ہے۔

بالو نے فریدآباد سے اپنے سپاہیوں کو ساتھ لیا، سکندرآباد پہنچے، مقامی فوج دار پر حملہ کیا اور اسے نکال باہر کیا، شہر کو لوٹا، مقامی تاجروں کو پکڑ کر الٹا لٹکا کر پیسوں کے لیے کوڑے مارے۔ لوگوں کی شہنشاہ کے لیے شکایت صفدر جنگ تک پہنچی۔

انھوں نے جاوید سے اس بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہ خود بالو کی خبر لیں گے۔ جاوید نے اپنے ایک وفادار کو بالو کے پاس بھیجا جس نے بالو سے بات چیت کے بعد انھیں لوٹ کے سامان اور دانا کور کے قلعے میں جو جاوید خان کی جاگیر میں تھا پناہ لینے دی۔ درباری مورخ شاکر خان کے مطابق صفدر جنگ نے بھرے دربار میں جاوید خان پر بالو کی پشت پناہی کا الزام لگایا اور وہ سر جھکا کر سنتے رہے۔

جاوید خان 27 اگست کو صفدر جنگ کے ہاں گئے، دونوں نے اکٹھے ناشتا کیا۔

صفدر جنگ جاوید خان کو ایک جانب لے جا کر کچھ سمجھانے لگے۔ وہیں پیچھے سے کسی نے جاوید کے جگر میں خنجر گھونپ دیا اور کہا ’اپنی غداری کا مزہ چکھ لو۔‘

دوسرے افراد نے آگے بڑھ کر ان کا کام تمام کر دیا۔ سر کاٹ کر وزیر کی حویلی کے باہر زمین پر بیٹھے اس خواجہ سرا کے حواریوں کی جانب پھینک دیا گیا اور دھڑ دریا کنارے ریت پر۔

لوگ خوف سے بھاگ نکلے۔ قلعے کے اندر اور باہر جاوید خان کے تمام خزانوں پر قبضہ کر لیا گیا، حرم کے پرانے منتظم روز افزوں خان کو بہت سے عہدے واپس مل گئے اور کچھ عرصہ دلی میں سکون رہا۔

ایک مصنف چہار گل جاوید خان کی بنائی عمارتوں اور مساجد کے لیے کہتے ہیں: وہ شخص کبھی نہیں مرتا جو اپنے پیچھے زمین پر پُل، عبادت گاہ، کنواں اور سرائے چھوڑ جاتا ہے۔

صفدر جنگ نے شہنشاہ کے تمام ملازموں کو نکال دیا۔ خزانہ اور فوج پہلے ہی مغل شہنشاہ کے ہاتھ میں نہیں تھے، صفدر جنگ نے ان کے ملازم بھی اپنے مقررکر دیے۔ یوں شہنشاہ کی حیثیت وزیر کے ایک قیدی کی سی رہ گئی۔

مراٹھوں کو صفدر جنگ نے وعدہ کی رقم میں سے کچھ دے دی اور ان سے درخواست کی کہ دلی کی آبادی پر اپنا غصہ نہ نکالیں۔

مراٹھے خود بھی اس درباری لڑائی میں پڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے فوجیوں کو دارالحکومت میں داخل نہیں ہونے دیا تاہم اردگرد کے علاقے ان کے غیظ و غضب سے محفوظ نہ رہ سکے۔

عزیز الدین، عالم گیر دوم کا مقبرہ

شہنشاہ احمد شاہ نے ریاست کے امور خود چلانا شروع کر دیے

جاوید خان کے سفاکانہ قتل اور شہنشاہ اور ان کے خاندان کے ساتھ بُرے سلوک کی افواہوں سے دربار اور دلی میں صفدر جنگ مخالف لہر اُٹھ گئی۔

خانہ جنگی پھوٹ پڑی جو دلی کی گلیوں میں مئی سے نومبر 1753 تک چھ ماہ لڑی گئی۔ انتظام الدولہ اور عمادالملک صفدر جنگ مخالف قوتوں کے سرخیل تھے۔ اب طاقت کا توازن ان کے ہاتھ تھا۔

صورتحال بگڑتی دیکھ کر صفدر جنگ نے شہنشاہ پر اپنی گرفت ڈھیلی کر دی اور مخالفین سے صلح کر لی۔ باہمی معاہدے کے تحت صفدر جنگ کو اودھ اور الہ آباد کی گورنری دے دی گئی اور وہ اپنی تمام فوج لے کر 7 نومبر 1753 کو دلی سے چلے گئے۔

شہنشاہ احمد شاہ نے اپنے دور کے آخری دو یا تین برسوں میں ریاست کے امور خود چلانا شروع کر دیے۔ پورے چھ گھنٹے مصروف رہتے، اس دوران نہ کچھ کھاتے نہ پیتے۔

علاقوں سے آئی خبریں پڑھتے، صوبے داروں کے خطوط کا جواب دیتے، شکایات سنتے، فوجی فہرستوں کا معائنہ کرتے، مالی اور انتظامی معاملات پر حکم جاری کرتے مگر ان پر کبھی عملدرآمد نہ ہوتا۔

کام کا وقت ختم ہونے پر اگلے اٹھارہ گھنٹوں کے لیے مردوں سے دور، حرم کی خواتین اور خلوت میں چلے جاتے۔ پھر اعلیٰ ترین وزیر کو بھی شرف باریابی نہ ملتا۔

شہنشاہ کے گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی

سرکار کے مطابق ’عام طور پر بہترین اور پُرامن ترین گاؤں تاج (خالصہ) شہنشاہ کے صرفِ خاص کے لیے رکھے جاتے۔ شہنشاہ اور ان کا گھر ان ہی پر چلتا لیکن پہلے جاوید خان اور صفدر جنگ جیسے امرا اور بعد میں عمادالملک نے یہ آمدن اپنے لیے مخصوص کرلی۔ شہنشاہ کو کم ہی حصہ دیتے۔ یوں شہنشاہ، ان کے گھر اور خدام میں فاقوں تک نوبت آگئی۔

’گورنر اپنے اپنے علاقوں میں آزاد اور خود مختار اور امارت سے رہنے لگے۔ دربار سے وابستہ امرا کو باقاعدہ آمدن ملنا بند ہوگئی تو غربت میں انھوں نے اپنے ملازموں اور سپاہیوں کو فارغ کردیا۔ بس جاوید خان، صفدرجنگ اور ذوالفقار جنگ ہی معقول آمدن اور مضبوط فوج کے حامل رہے لیکن ذوالفقاربھی 1750 کی راجپوت مہم میں شکست فاش کے بعد بھیک مانگنے تک آ گئے۔ یوں شاہی محافظوں اور دارالحکومت کے توپ خانے کے سپاہیوں کے علاوہ، جن کی تنخواہ مہینوں سے واجب تھی، فوجی طاقت تحلیل ہو گئی۔ آخر تک تین سال کے بقایا جات تھے۔‘

’امارت عسرت میں بدل گئی۔ وسطی ایشیا کے سپاہیوں اور شہنشاہ کے گھریلو سپاہیوں نے وزیروں، امرا، تاجروں اور دست کاروں سے تمام قیمتی اشیا اٹھا لیں اور انھیں بیچ دیا۔ امرا کو ایسا بے عزت کیا کہ ان کے پاس صرف پہننے کے کپڑے اور مٹی کے برتن ہی بچے۔ جب شہنشاہ نے تحقیقات کی تو تنخواہوں کے تین سال کے واجبات نکلے۔ خزانے میں ایک پائی بھی ہونے کا کیا امکان تھا۔ بس طوائف الملوکی تھی یعنی ریاست ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی۔‘

دلی

انتظام الدولہ کو شہنشاہ نے خانہ جنگی کے دوران ہی وزیر مقرر کردیا تھا مگر اب عماد الملک کی قیادت میں امرا نے ان کی مخالفت شروع کردی۔

انھوں نے جلد ہی عمادالملک کے حق میں استعفیٰ دے دیا۔ عماد الملک ‘طاقتور اور سازشی‘ ہونے کے باوجود ‘دلی کے نااہل ترین وزیروں میں ایک‘ ثابت ہوئے۔

خود غرض اور طاقت کے بھوکے، عماد الملک نہ تو انتظام چلا سکے نہ مغل دربار میں اپنے ساتھیوں کا اعتماد پا سکے۔ شہنشاہ کے ساتھ ان کا رویہ تحکمانہ اورآمرانہ تھا جو احمد شاہ اور ان کے شاہی خاندان کے لیے مایوس کن تھا۔

سابق شہنشاہ اور ان کی والدہ کی آنکھیں نکال دی گئیں

عماد الملک شکی مزاج ’اور سازشی‘ تھے۔ اپنے دوستوں پر بھی اعتبار نہ کرتے اور ہمیشہ دشمنوں کی جانب سے بھی انھیں ایسے ہی سلوک کا ڈر رہتا۔ اسی لیے جوں ہی صفدر جنگ کی واپسی کی افواہیں سنیں، عماد الملک کا سکون برباد ہوگیا کہ ان کی واپسی پر ہوسکتا ہے وزارت انھیں دے دی جائے۔

ایسی سوچ لیے عماد الملک نے بے بس شہنشاہ سے تخت چھین لیا اور ایک اور مغل شہزادے عزیز الدین کو قید سے نکالا اور عالم گیر دوم کے خطاب کے ساتھ تخت نشین کردیا۔

نئے شہنشاہ نے احمد شاہ کی گرفتاری کا حکم دیا۔ سیف اللہ کی سربراہی میں سپاہی خاص محل کی ڈیوڑھی سے حرم میں داخل ہوئے تو احمد شاہ اور ان کی والدہ کو رنگ محل کے سامنے باغ کے درختوں میں چھپا دیا۔

پہلے انھوں نے سابق شہنشاہ کو باہری جانب ایک کمرے میں بند کیا پھر ان کی والدہ کا چہرہ چھپانے کے لیے منھ پر شال پھینک کر کھینچ کر انھیں بھی اسی کمر ے میں لے جایا گیا۔ معزول شہنشاہ پیاس اور ذہنی صدمے کی شدت سے پانی کے لیے پکارتے۔

سیف اللہ نے وہیں مٹی میں پڑے ٹوٹے گھڑے کے ایک ٹکڑے میں پانی ڈال کر ان کے منھ کے قریب کیا۔ ایک گھنٹا پہلے تک کے شاہوں کے شاہ اسے پی کر بہت خوش تھے۔

تاریخ احمد شاہی کے مطابق ایک ہفتے بعد سابق شہنشاہ اور ان کی والدہ کی آنکھیں نکال دی گئیں۔

جسونت لال مہتا کا کہنا ہے کہ ادھم بائی نے احمد شاہ میں کردار کی کمی کو بڑھاوا دیا اور اسی کردار کی کمی نے ان کی اور بادشاہ کی قسمت پر مہر لگا دی۔

احمد شاہ بہادر سلیم گڑھ قلعہ میں قید رہے، شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے دور میں 1775 یکم جنوری میں 49 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

ان کے ایک بیٹے (محمود شاہ بہادر بیدار بخت) نے 1788 میں شاہ جہاں چہارم کے طور پر مختصر طور پر حکومت کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *