آپ سیلاب زدگان کی مدد کیسے کر سکتے ہیں

آپ سیلاب زدگان کی مدد کیسے کر سکتے ہیں

آپ سیلاب زدگان کی مدد کیسے کر سکتے ہیں، کیا آپ کو خود جانا چاہیے؟

پاکستان کے چاروں صوبوں میں سیلاب نے ہزاروں افراد کو اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ آفات سے نمٹنے کے حکومتی اداروں کے مطابق خصوصاً صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ہزاروں گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔

بے گھر ہونے والے افراد کی ایک بڑی تعداد یا تو عارضی طور پر لگائے گئے خیموں میں مقیم ہے یا کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہے۔

اس قدر بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر جنم لینے والی فوری ضروریات کے پیشِ نظر حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہے۔ فوج کو ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن میں حصہ لینے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

حکومتی اداروں کے مطابق سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بڑے پیمانے پر اشیائے خورد و نوش، ادویات اور خیموں وغیرہ کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صورتحال نمٹنے کے لیے عوام سے متاثرہ افراد کی امداد کرنے کی اپیل کی ہے۔

حکومت کے مطابق عوام براہِ راست یا حکومتی اداروں کے ذریعے یہ امداد متاثرین تک پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم امداد کرنے کے خواہش مند بہت سے افراد کے لیے یہ ایک بڑا سوال ہے کہ عام افراد اگر سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟

گذشتہ چند روز سے پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر لوگ یہ سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاہم انھیں اس کے لیے صحیح طریقہ معلوم نہیں ہے۔ کیا متاثرین کو براہِ راست پیسے دیے جائیں؟ اگر پیسے دیے جائیں تو کیسے؟

یا پھر متاثرین کو اس وقت پیسوں سے زیادہ براہِ راست کھانے پینے کی اشیا اور سر چھاپنے کے لیے خیموں وغیرہ کی ضرورت ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس قسم کی امداد متاثرین تک کیسے پہنچائی جائے؟ کیا اس کے لیے خود سے متاثرہ علاقوں کی طرف سفر کرنا مناسب ہے یا پھر کسی ادارے کی مدد لی جائے۔

آفات سے نمٹنے کے منظّم طریقہ کار کے حوالے سے تحقیق کرنے والے ماہرین اور امدادی کاموں کا تجربہ رکھنے والے افراد کا خیال ہے اس نوعیت کے سوالوں کا کوئی ایک حتمی جواب دینا مشکل ہے تاہم چند بنیادی اصول ایسے ہیں جن پر عمل کیا جائے تو عام افراد بھی لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

سیلاب

کراچی سے تعلق رکھنے والے سید طارق لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور ان کی تحقیق کا موضوع ڈزاسٹر مینیجمنٹ آپریشنز ہے۔

انھوں نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کرنے کے حوالے سے طریقہ کار پر حال ہی میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک معلوماتی پوسٹ بھی لگائی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سید طارق نے بتایا کہ سب سے پہلے امداد کرنے والے شخص کے لیے ضروری ہے کہ چند غلط تاثرات کی نفی کی جائے۔

کیا پکا پکایا کھانا متاثرین کے کام آئے گا؟

محقق سید طارق کے خیال میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو کھانے کے اشدّ ضرورت ہے اس لیے انھیں پکا پکایا کھانا بھجوانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے مشاہدے میں ایسی ویڈیوز بھی آئی ہیں جن میں لوگ دیگیں پکا کر سیلاب متاثرین کے لیے لے کر جا رہے ہیں۔

’پکے پکائے کھانے کا سیلاب متاثرین کو زیادہ فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ کھانا ان تک پہنچانا بھی مشکل ہے اور اگر پہنچ بھی جائے تو اس کو زیادہ دیر کے لیے رکھا نہیں جا سکتا، یہ خراب ہو جاتا ہے۔‘

سید طارق کا کہنا تھا کہ اس میں ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہلے ہی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ خراب کھانا استعمال کرنے سے بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ غیر استعمال شدہ یا باسی کھانا گندگی پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔

سیلاب

کیا آپ کو خود امدادی سامان لے کر متاثرہ علاقوں میں جانا چاہیے؟

محقق سید طارق کے مطابق پاکستانی معاشرے میں عام طور پر لوگ حکومتی یا غیر سرکاری تنظیموں کو نقد امداد دینے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں۔

’انھیں اس حوالے سے ابہام ہوتا ہے کہ ان کی دی جانے والی رقوم کیا واقعی متاثرہ افراد تک پہنچ رہی ہیں یا نہیں۔ اس لیے بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں نقد کے بجائے امدادی سامان خرید کر دیا جائے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ یہ سامان خود لے کر ان لوگوں کے پاس جائیں۔‘

سید طارق کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر آفات کی صورت میں عمومی طور ہدایات یہ ہوتی ہیں کہ عام افراد امدادی سامان کی بجائے نقد عطیات دیں۔ ’یہ عطیات وہ حکومتی اداروں کو بھی دے سکتے ہیں اور غیر سرکاری تنظیموں یا گروپوں کے ذریعے بھی دے سکتے ہیں۔‘

ان کے خیال میں کسی ایسے شخص کے لیے جو آفات کے علاقے میں کام کرنے کا تجربہ نہیں رکھتا اس علاقے میں خود جانا ان کے اپنے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے اور ریسکیو کے کام میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔

اس وقت متاثرین کو کن تین چیزوں کی فوری ضرورت ہے؟

بیرسٹر منصور شاہ ایک کاروباری گروپ سیمسنز گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں اور ان کی کمپنی نے حال ہی میں پہلے چترال کے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان بھجوایا ہے جبکہ اب سوات میں بھیج رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر منصور شاہ نے بتایا کہ جب انھوں نے سیلاب متاثرین کی امداد کا فیصلہ کیا تو انھوں نے پہلے آفات سے نمٹنے کے حکومتی ادارے پی ڈی ایم اے سے رابطہ کیا۔

’پی ڈی ایم اے نے ہمیں بتایا کہ ہم براہِ راست انھیں ضروری اشیا خرید کر بھی دے سکتے تھے اور اگر اہم براہِ راست خود سے امدادی سامان متاثرین تک پہنچانا چاہیں تو وہ بھی کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے پی ڈی ایم اے کو بھی کچھ سامان مہیا کیا لیکن ہم نے خود سے لوگوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

سیلاب

ان کے لیے بھی یہ بات اہم تھی کہ انھیں معلوم ہو کہ ان کی طرف سے کی جانے والی امداد واقعتاً مستحق افراد تک پہنچ رہی ہے۔ بیرسٹر منصور شاہ کا کہنا تھا کہ ان کے تجربے کے مطابق اس وقت فوری طور پر سیلاب متاثرین کو تین بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔

ترپال یا خیمے

بیرسٹر منصور شاہ کے مطابق انھیں پی ڈی اہم اے سے جن چیزوں کی لسٹ ملی اس میں ترپال یا خیمے بنیادی اشیا میں شامل تھے۔ بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے اوّلین مسئلہ سر چھپانے کا انتظام ہوتا ہے۔

انھوں نے چار میٹر سکوائر سائز کے ایسے خیموں کا بندوبست کیا جن میں آٹھ سے دس افراد زمین پر جب کے چار سے چھ افراد چارپائیاں ڈال کر باآسانی سو سکتے تھے۔ پی ڈی ایم اے کی طرف سے بھی اسی سائیز کے خیموں کی ہدایات دی گئی ہیں۔

’لیکن ہمیں اس وقت مسئلہ یہ پیش آ رہا ہے کہ ترپال یا خیموں کی مارکیٹ میں سخت کمی واقع ہو گئی ہے اور آسانی سے میسر نہیں ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں خیموں کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنی جان پہچان والے صنعتوں سے بھی رابطہ کیا ہے مگر ان کے پاس بھی خیمے میسر نہیں ہیں۔‘

بیرسٹر منصور شاہ کا کہنا تھا جو افراد سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتے ہوں وہ اس قسم کے خیمے خرید کر ان تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *