آمنہ مفتی کا کالم اڑیں گے پرزے حسن اپنے ویران گھر پر

آمنہ مفتی کا کالم اڑیں گے پرزے حسن اپنے ویران گھر پر

آمنہ مفتی کا کالم اڑیں گے پرزے حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر

امریکہ پاکستان کو ماحولیاتی کانفرنس میں نہیں بلا رہا۔ پاکستان انڈیا کے ساتھ تجارت شروع کر رہا ہے۔ یہ دو خبریں پڑھیں اور ابھی دوسری خبر کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ فیصلہ تبدیل ہو گیا۔

کچھ برس پہلے انڈیا جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں کے چند صنعت کاروں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کی گفتگو سے جو تاثر ملا وہ یہ ہی تھا کہ وہ سب کے سب جی جان سے چاہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان اچھے تعلقات ہوں اور ان تعلقات کے نتیجے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت جاری ہو۔

اس تجارت سے ان کی مراد یہ تھی کہ وہ اپنا مال پاکستان میں بیچ سکیں۔ پاکستان کی مصنوعات میں ان کی دلچسپی فقط ڈراموں کی حد تک تھی اور وہ اس دور میں ’زی زندگی‘ کی مہربانی سے کوڑیوں کے مول لے کر انھیں دکھائے جا رہے تھے۔

ان کی باتوں سے میں جو کچھ اخذ کر پائی وہ سادہ ترین الفاظ میں یہ ہی تھا کہ انڈیا، پاکستان کو اپنی منڈی بنانا چاہ رہا تھا جہاں وہ اپنا تیار اور خام مال دونوں بیچ سکے۔ اس عظیم مقصد کے درمیان کچھ بھی حائل نہ تھا کیونکہ ایسے فیصلے سب ہی جانتے ہیں کیسے کرا لیے جاتے ہیں۔ مجبوری تھی تو صرف ایک اور وہ تھا چین

تب مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان چین کی منڈی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔ جواب میں پاکستان چین کو کیا بیچے گا؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں۔ ایسے جواب نہایت مشکل اعدادو شمار کی صورت میں سامنے آتے ہیں جنھیں سمجھنا میرے بس سے باہر ہے۔

اس واقعے کو سالہا سال ہو گئے۔ ابھی حال ہی میں جب اچانک انڈیا کے ساتھ تجارت شروع کرنے کا اعلان کیا گیا اور پھر فوراً ہی فیصلہ بدل دیا گیا تو مجھے یہ بات یاد آئی اور پھر اچانک یہ بات کھلی کہ کون ہے جو اچانک انڈیا کے ساتھ تجارت کو بے قرار ہو جاتا ہے اور کون ہے جو فوراً یوٹرن لے لیتا ہے۔

اب ایک طرف انڈیا ہے اور دوسری طرف چین۔ امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے اور طالبان کی طرف اس کا جو رویہ ہے اس سے صاف نظر آتا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد کیا ہو گا۔ ایران سے سینگ اڑانے کا فی الحال امریکہ کا موڈ نظر نہیں آتا تو لے دے کے بچتا ہے چین۔

امریکہ کا مدمقابل، ایک نئی اقتصادی قوت جس سے امریکہ جو کہ فی الحال واحد سپر پاور ہے شدید خائف ہے۔ اس ساری دو جمع دو چار کا نتیجہ جو نظر آرہا ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان کے امریکی و بین الاقوامی امدادوں پر پلنے کے دن ختم ہو گئے۔

اب ممکنہ طور پر انڈیا کو خطے میں چین کے مقابل صنعتی طاقت بنانے کی کوشش کی جائے گی اور اگر نہ بھی کی گئی تو چین اور انڈیا ماضی کے فرانس اور برطانیہ کی طرح اپنی اپنی تجارتی منڈیوں کی جنگ لڑیں گے۔

اب رہ گیا پاکستان تو سعودی عرب اور امریکہ کی لازوال جوڑی سے جو کچھ کشید کر سکتا تھا اب تک کشید کرتا آیا ہے، وہ مال کہاں گیا؟ گھی کہاں گیا، کھچڑی کہاں گئی؟ پیاروں کے پیٹ میں کے مصداق ،مال غائب ہو گیا۔ پیاروں کے حلق میں ہاتھ کون ڈال سکا ہے؟

عمران، مودی

اب بھی وقت ہے دوسروں کے پوڈل بننے اور پرائی جنگوں میں ٹانگ اڑانے کی بجائے اپنے ملک کا معاشی انفراسٹریکچر سیدھا کیا جائے تاکہ جب بھی کسی ملک سے تعلقات بنائے جائیں تو وہ دو طرفہ ہوں اور تجارت بھی کی جائے تو دو طرفہ ہو۔

کاٹھ کی جو ہنڈیا یہاں پچھلے چوہتر برس سے چڑھی ہوئی تھی اب اس کا وقت پورا ہو گیا ہے۔ آنکھیں کھولنے اور سوچ سمجھ کے چلنے کی ضرورت ہے ورنہ اسی دنیا کے نقشے پر ایسے ملک بھی موجود ہیں جن کا نام صرف ان کی بدحالی کی وجہ سے یاد رہتا ہے۔

حکومتی فیصلوں کا راتوں رات تین سو ساٹھ ڈگری پر بدل جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ سے اب بہت کچھ پھسل چکا ہے۔ ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار جیسے عالمی حالات نہیں رہ گئے۔

ان بدلتے حالات کے ساتھ سٹیبلشمنٹ کو بھی اپنا کردار اور رویہ دونوں بدلنا پڑیں گے۔ آج امریکہ کی طرف سے ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کو مدعو نہ کرنا بہت سے نئے افسانوں کے عنوان سجھاتا ہے۔

ویسے اگر پاکستان کو اس کانفرنس میں مدعو کر بھی لیا جاتا تو پاکستان کی نمائندگی کون کرتا؟ ہنسنے کا نہیں سوچنے کا مقام ہے۔ جی بھر کے سوچیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *