وزیرِ اعظم پر اعتماد کے ووٹ کا معاملہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوگی
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ سنیچر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے یہ اعلان جمعے کی شام میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
یاد رہے کہ پاکستان کے صدر عارف علوی نے سنیچر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے تاکہ وزیرِ اعظم عمران خان ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکیں۔
سینیٹ انتخاب میں اسلام آباد کی نشست کو انتہائی اہم مقابلہ تصور کیا جا رہا تھا اور اس میں بظاہر پی ٹی آئی کے اپنے ارکان کی جانب سے حکومت امیدوار حفیظ شیخ کو ووٹ نہ دیے جانے کی وجہ سے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوئے۔
اس کے فوراً بعد عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔
اپنی پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں خود عمران خان کے بقول بولی لگی، اس کا الزام وہ کس کو دے رہے ہیں۔
انھوں نے سوال کیا کہ کیا عمران خان سنیچر کو انھی ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینا چاہتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا کوئی رکن اس اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کی عدم شرکت سے اس اجلاس کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں رہے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان پر عدم اعتماد سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کی صورت میں ہو چکا ہے۔
شکست تسلیم کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے: الیکشن کمیشن
اس سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کا سینیٹ انتخاب کے نتائج پر حکومتی اعتراض اور وزیرِ اعظم کے الزامات پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ جمعے کے روز الیکشن کمیشن نے ایک اہم اجلاس میں سینیٹ انتخاب میں شفافیت سے متعلق وزیر اعظم اور وفاقی وزرا کے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔
واضح رہے کہ جمعرات کی شام کو پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کے دوران الیکشن کمیشن پر جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا تھا۔
قوم سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سیکریٹ بیلٹ کروا کر ’مجرموں کو بچا لیا ہے۔‘ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کے الزام کے جواب میں کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت سینیٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی منعقد ہوتے ہیں۔‘
اسی سلسلے میں ای سی پی نے وزیرِ اعظم کے بیان کا جائزہ لینے کے لیے جمعے کے روز ایک خصوصی اجلاس بلایا تھا۔ اس اجلاس میں الیکشن کمیشن نے پیمرا سے وزیرِ اعظم اور دیگر وفاقی وزرا کی تقاریر کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔ جمعے کے اجلاس کی صدارت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کی جبکہ سیکریٹری اور الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان بھی اجلاس میں شامل تھے۔
اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ ہر سیاسی جماعت اور شخص میں شکست تسلیم کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ’کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ ایک ہی چھت تلے ہونے والے الیکشن میں سے جو جیت گئے وہ منظور اور جو ہار گئے وہ نا منظور۔‘ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’ہمیں کام کرنے دیں اور ملکی اداروں پرکیچڑ نہ اچھالیں۔‘ الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’وزیراعظم اور وفاقی وزرا کے بیان پر دکھ ہوا۔‘
الیکشن کمیشن کا اپنے اعلامیے میں کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن آئینی اور آزاد ادارہ ہے، کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اور قانون کو نظرانداز یا تبدیل نہیں کر سکتے، اگر ہمارے فیصلوں پر کسی کو اعتراض ہے تو آئینی راستہ اختیار کریں۔‘
الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ کبھی کسی کے دباؤ میں آئے ہیں نہ آئیں گے۔
’آزادانہ الیکشن اور خفیہ بیلٹ کا حسن پوری قوم نے دیکھا یہی آئین کی منشا تھی، الیکشن کمیشن کا کام قانون سازی نہیں قانون کی پاسبانی ہے، اسی طرح آئینی اداروں کی تضحیک کی جاتی رہی تو یہ الیکشن کمیشن کی نہیں حکومت کی کمزوری ہو گی۔‘
الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ ’اختلاف ہے تو شواہد کے ساتھ آ کر بات کریں، آپ کی تجاویز سن سکتے ہیں تو شکایات کیوں نہیں۔ ہمیں کام کرنے دیں، کچھ تو احساس کریں۔‘
’الیکشن کمیشن کو دکھی ہونے کی نہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے‘
الیکشن کمیشن کے بیان کے بعد وفاقی وزیرِ اطلاعات شبلی فراز اور فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو دکھی ہونے کی نہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے۔‘
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز غیر مناسب ہے اس پر تنقید ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کا ادارہ ہمارے لیے محترم ہے اور رہے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں ایک خیال کا اظہار کیا تھا کہ جو ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد کی گئی تھی وہ صحیح طریقے سے پوری نہیں ہوئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو اپنے اقدامات کے ذریعے تبدیلی لانی چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے ان 16 لوگوں کے بارے میں الیکشن کمیشن نے بتانا ہے، جنھوں نے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا ہے۔
فواد چوہدری کے مطابق ‘ہم اس وجہ سے ہی بتا رہے تھے کہ بیلٹ پیپر ٹریس ایبل رکھیں تاکہ ایسے لوگوں کا پتا چلایا جا سکے۔ الیکشن کمیشن کو دکھی روح بننے کی ضرورت نہیں۔’ ان کے مطابق الیکشن کمیشن ایک طاقتور ادارہ ہے۔ فواد چوہدری کے مطابق ‘مجھے امید ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے موقف میں نظرثانی کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا ’انکوائری الیکشن کمیشن نے ہی کرنی ہے اور ہم اسے ویلکم کریں گے۔‘
’الیکشن کمیشن کو نشانہ بنانا بڑی غلط بات ہے‘
دوسری جانب مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’اب پوری قوم اور اداروں کو سمجھ آ گئی ہے کہ سسلین مافیا کیا ہوتا ہے اور وہ کیا ہوتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جس طرح الیکشن کمیشن کو نشانہ بنایا وہ بڑی غلط بات ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن نے خفیہ رائے شماری پر جو رائے دی وہ ان کی ذاتی نہیں بلکہ آئین پاکستان کی رائے ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ آئین میں تبدیلی سے ہی طریقہ کار میں تبدیلی ممکن ہو سکے گی۔ الیکشن کمیشن سمیت کسی بھی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ آئین میں تبدیلی کرے۔‘
مریم نواز کا کہنا تھا کہ اداروں کو متنازع بنانے والا الزام ہم پر لگایا جاتا تھا مگر ہم نے سزائیں بھگتیں بھی اور جیلیں بھی کاٹیں اور اب بھی اداروں کی سربلندی کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا ’اب اداروں کو بھی پتا چل گیا ہو گا کہ کون مافیا ہے اور کون ان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔