نور مقدم کیس میں سزا کے خلاف اپیل عدالت نے

نور مقدم کیس میں سزا کے خلاف اپیل عدالت نے

نور مقدم کیس میں سزا کے خلاف اپیل عدالت نے محض سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ کر موت کی سزا سنائی

سابق سفارت کار شوکت مقدم  کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اپیل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کے وکیل نے کہا ہے کہ استغاثہ کی جانب سے  اس واقعے سے متعلق درج مقدمے میں  اغوا کے لیے گواہ اور تھے  جبکہ قتل کے لیے الگ گواہان متعارف کرائے گئے۔

انھوں نے کہا کہ ’پولیس نے جائے حادثہ سے 2.5 انچ کا بلیڈ اور 3.5 انچ کا دستہ ملا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ آلہ قتل ہے جبکہ اس کو آلہ قتل کے طور پر تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ  قانون کے مطابق 4 انچ کا بلیڈ ہونا چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’گھر میں پستول بھی موجود تھا۔‘

شواہد کی صحت پر سوالات

عثمان کھوسہ کا کہنا تھا کہ کرائم سین سے فنگر پرنٹس بھی محفوظ کیے گئے ان میں سے کچھ رپورٹس نیشنل فرانزک ایجنسی کی رپورٹ پیش کی گئیں جبکہ کچھ لاہور سے فرانزک کرائی گئیں۔

اس موقعے پر مدعی مقدمہ شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاورایڈووکیٹ نے کہا کہ ’جب چاقو مستقل استعمال کیا جائے تو فنگر پرنٹس مکس ہو جاتے ہیں اور رپورٹ میں نہیں آتے۔‘

مجرم کے وکیل کا کہنا تھا کہ فرانزک کرنے والے سائنٹفک آفیسر کو ٹرائل کورٹ نے گواہ کے طور پر نہیں بلایا جبکہ قانون کے تقاضے پورے کرنے کے لیے  ان کو بلانا چاہیے تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق  نے کہا کہ ثبوت پہلے مال خانے جاتے ہیں یا براہ راست لیبارٹری جاتے ہیں؟

عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ’پہلے مال خانے جاتے ہیں،ڈاکٹر کے مطابق اس نے نمونے تفتیشی افسر کو دیے۔‘

مجرم ظاہر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس نے جائے حادثہ سے نمونے اکھٹے نہیں کیے بلکہ پیدا کیے گئے ہیں اور متعقلہ عدالت نے محض سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ کر ان کے موکل کو موت کی سزا سنا دی۔

 انھوں نے کہا کہ ان کے موکل کو قتل کے علاوہ اغوا کی دفعات کے تحت سزا سنائی گئی۔

’ ویڈیو میں موجود لوگوں کی شناخت ہونا بھی ضروری تھی‘

عثمان کھوسہ کا کہنا تھا کہ 18 جولائی 2021 کو نور مقدم خود اپنی مرضی سے آئی تھیں ظاہر جعفر کے گھر اور 19 جولائی کو واپس گئیں۔

انھوں نے کہا کہ اس کے بعد وہ دوبارہ واپس آئیں اپنی مرضی سے تاہم بعد میں ظاہر جعفر نے انھیں واپس جانے سے زبردستی روکا۔

چیف جسٹس نے مجرم کے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ آبزرویشن ڈی وی آر کی فوٹیج دیکھ کر بنائی گئی؟ انھوں نے کہا کہ مقتولہ کے دو بیگ جو فوٹیج میں آ رہے ہیں وہ ریکور ہوئے؟

جس پر مجرم کے  وکیل نے کہا کہ ’نہیں ہوئے نہ ہی ہینڈ بیگ ریکور ہوا، ٹرائل کورٹ نے سی سی ٹی وی پر انحصار کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’صرف ویڈیو چلا دینے سے جرم ثابت نہیں ہوتا، ویڈیو میں موجود لوگوں کی شناخت ہونا بھی ضروری تھی۔‘

ظاہر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی شناخت شوکت مقدم نے نہیں کی بلکہ پولیس والوں نے کی جبکہ انھیں کیا پتہ کہ ویڈیو میں کون ہے؟

انھوں نے کہا کہ  نور مقدم کے والد نے ویڈیو دیکھنے کے بعد سٹیٹمنٹ دی لیکن  اس میں ذکر نہیں کیا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا تھا۔

’موبائل فون کا کا فرانزک نہیں ہوا‘

noor muqadam

مجرم کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’مقتولہ نور مقدم کے موبائل سے ظاہر جعفر کے گھر موجودگی کے دوران نہ پولیس کو کوئی کال کی اور نہ کسی رشتہ دار کو کال کر کے کہا گیا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مقتولہ کا فون ریکارڈ کے مطابق رابطہ ماں سے ہوتا تھا لیکن مقتولہ کی ماں کو تفتیش میں شامل نہیں کیا گیا اور نہ کوئی وجہ بتائی شامل نہ کرنے کی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر والدہ کا ایک بیان آجاتا تو کیس میں کافی کلیریٹی آ سکتی تھی۔ 19 جولائی  کو مقتولہ نے اپنی والدہ کو کال کی کہ وہ لاہور جا رہی ہے، والد اور والدہ سے بات کا موبائل ریکارڈ موجود نہیں ہے۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فرانزک ہوا موبائل کا، جس پر وکیل نے کہا کہ نہیں موبائل کا فرانزک نہیں ہوا، قبضے میں اور موبائل تھا ریکارڈ پر کوئی اور تھا۔

انھوں نے کہا کہ مقتولہ کا موبائل مال خانے میں جمع بھی نہیں ہوا اور مقتولہ کے موبائل کی آئی ایم ای آئی بھی مختلف تھی۔

عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ والدین اور نور مقدم کی کالز کا ذکر ایف آئی آر میں ہے، مگر والدین کے موبائل قبضہ میں نہیں لیے گئے، قبضے میں لیا گیا موبائل اور تھا اور فرانزک جس موبائل کا کیا  گیا وہ اور تھا۔

اس دورکنی بینچ میں شامل جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ سی ڈی آر میں کال ڈیٹا آتا ہے۔ وٹس ایپ کال یا ڈیٹا کال ریکارڈ میں نہیں آتے، جس پر مجرم کے وکیل  نے کہا کہ فون سے وٹس ایپ ڈیٹا ڈیلیٹ ہو جاتا ہے مگر اسے ریکور کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  شاید ایسا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *