میاں محمد سلطان لاہور کا سلطان‘ کہلائے جانے

میاں محمد سلطان لاہور کا سلطان‘ کہلائے جانے

میاں محمد سلطان لاہور کا سلطان‘ کہلائے جانے والے ٹھیکے دار جنھوں نے ’چھوٹی اینٹ کی ہوس‘ میں لاہور کی مساجد تک منہدم کروائیں

یہ تحریر بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر پہلی مرتبہ گذشتہ برس جولائی میں شائع کی گئی تھی، جسے آج قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

لاہور کے دہلی دروازے سے شاہی گزرگاہ پر آئیں تو لکڑی کی لمبی بالکنی سے سجی ایک چار منزلہ عمارت اپنے شاندار ماضی کا پتا دیتی ہے، یہ ’حویلی میاں سلطان‘ کہلاتی ہے۔

حویلی کو یہ نام میاں محمد سلطان سے ملا جو 19ویں صدی میں سکھ اور برطانوی دور کے ٹھیکے دار تھے۔

دس سال کی عمر میں یتیم ہونے والے محمد سلطان اپنی بیوہ ماں کے ساتھ شاہ آباد (ویری ناگ) کشمیر سے لاہور آئے تو اُن کی عمر لگ بھگ 12، 13 سال تھی۔ یہاں انھوں نے ایسا عروج پایا کہ ’لاہور کا سلطان‘ کہلائے۔

مگر یہ کہانی اتنی سیدھی بھی نہیں ہے۔

تاریخ دان ایم جے اسلم کا کہنا ہے کہ بعد میں میاں محمد سلطان کے نام سے جانے گئے ملک محمد سلطان ان سینکڑوں خاندانوں میں شامل تھے جو سنہ 1832 کے قحط اور سکھ حکمرانوں کے جبر سے بھاگ کر روزی کمانے پنجاب منتقل ہوئے تھے۔

جب محمد سلطان لڑکپن میں لاہور پہنچے تو ابتدا میں یہاں محنت مزدوری کی، جوان ہوئے تو لاہور میں پہلے صابن بنا کر فروخت کیا اور پھر چونے کی بھٹی قائم کی۔

انھیں کُشتی کا شوق تھا اور اس سے پیسے بھی کماتے تھے۔ مہاراجا شیر سنگھ (1841-1843) کے دور میں انھوں نے ایک بڑے پہلوان کو شکست دی اور ایک گھوڑا انعام میں پایا۔

ایم جے اسلم لکھتے ہیں کہ ’جب سلطان نے کشتی جیت لی تو انھوں نے سکھ بادشاہ سے شکایت کی کہ سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے نگران افسر غریب ہونے کی وجہ سے اُن کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔‘

’انھوں نے درخواست کی کہ انھیں عمارتوں کی تعمیر کے لیے چونے کا ٹھیکا دیا جائے۔ سکھ بادشاہ نے انھیں قلعے کے لیے چونا فراہم کرنے کا ٹھیکا دے دیا اور یوں اُن کے لیے خوش قسمتی کے دروازے کُھل گئے۔‘

انھوں نے نہ صرف چونا سپلائی کیا بلکہ فصیل والے شہر لاہورمیں کئی عمارتیں بھی بنائیں۔

تعلقات بنانے کے ماہر

والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی سے منسلک تانیہ قریشی لکھتی ہیں کہ ’سلطان شہر کے بااثر لوگوں سے رابطے کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ایک چھوٹے ٹھیکے دار بن گئے۔‘

رضا علی عابدی نے اپنی کتاب ’ریل کہانی‘ میں لکھا کہ ’سلطان کی ایک خوبی تھی کہ جو کام سونپ دیا جائے، راتوں رات سرانجام دے دیتے تھے۔‘

ان کے مطابق ’جب انگریز آئے تو اُن کی پذیرائی کرنے والوں میں محمد سلطان آگے آگے رہے ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب نئے حکمرانوں نے لاہور چھاونی بنانا شروع کی تو بیرکیں تعمیر کرنے کا ٹھیکا محمد سلطان کو مل گیا۔ یہ بات 1850 کی ہے۔ سلطان نے لاہور کی پرانی تاریخی عمارتیں گِرا کر اُن کی اینٹوں کو استعمال کرتے ہوئے فوجی بیرکیں بنا دیں۔‘

حویلی میاں سلطان
حویلی میاں سلطان

چھوٹی اینٹ کی ہوس

کاشف چودھری کے مطابق ’مغلیہ دور کی چھوٹی اینٹ کی ہوس تھی۔ اس اینٹ کو حاصل کرنے کے لیے کئی اہم، نادر عمارتیں خرید کر گِرا دی گئیں۔‘

’لاہور کے دروازے گرائے گئے۔ عہدِ شاہان سلف کی یادگاریں زمیں بوس کر دیں، مغلیہ دور کی مساجد کا تو کوئی حساب نہیں تھا۔ کتنی شہید کیں اور کتنی چھوڑیں۔ صرف ایک اینٹ کی طمع میں، جو انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے مختلف عمارتوں میں استعمال کی گئیں۔‘

اس بارے میں محمد شجاع الدین لکھتے ہیں کہ ’سکھوں کے عہد کے علاوہ انگریزی دور کے آغاز میں خشت فروشوں اور سرکاری ٹھیکے داروں نے اینٹوں کی خاطر یہاں کے کئی مقبروں، مسجدوں، بارہ دریوں ،حوضوں اور مکانوں کو برباد کر دیا۔‘

طلحہ شفیق کے مطابق حضرت میاں میر کے مزار سے چند قدم پر واقع دارا کی بیوی نادرہ بیگم کے مقبرے سے سکھ عہد میں قیمتی پتھر کو نوچ ڈالا گیا۔

پھر انگریز دور میں میاں میر چھاؤنی کے لیے اینٹوں کی ضرورت بھی اسی مقبرے سے پوری کی گئی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’تحقیقات چشتی کے مطابق سلطان ٹھیکے دار نے سجادہ نشین، میاں میر دربار، محبوب شاہ سے 250 روپے کے عوض اس مقبرے کی بربادی کا سودا کیا۔ چشتی نے مقبرے کے گرد دیگر کئی عمارتوں کا بھی ذکر کیا ہے جو سلطان اور سجادہ نشین کے حرص و طمع کی نذر ہو گئیں۔‘

شاہ جہاں کے بیٹے داراشکوہ نے اپنے قیام لاہور کے دوران بیرون دہلی دروازہ میں بے شمار عمارات تعمیر کیں۔ اس عہد میں اس جگہ کا نام چوک دارا پڑ گیا۔

شجاع کا کہنا ہے کہ ’آصف خاں، وزیر شاہ جہاں کی حویلی بھی یہیں تھی۔ زوال سلطنت مغلیہ کے بعد یہاں کی فلک پیما عمارات تباہ و برباد ہو گئیں اور رہے سہے کھنڈروں کو میاں سلطان ٹھیکے دار نے صاف کروا کے ان کی جگہ سرائے اور لنڈا بازار تعمیر کروایا۔‘

’پاکستان کے آثارِ قدیمہ‘ میں لکھا ہے کہ ’وزیر خان نے شاہ عالمی دروازے کے اندر پری محل کے نام سے ایک حویلی تعمیر کروائی۔ سکھ عہد میں پہلے تو تین سکھ سرداروں نے اس کے پتھر نکلوائے اور فروخت کیے۔ انگریزی عہد میں محمد سلطان ٹھیکے دار نے اس کو خرید کر یہاں سے اینٹیں نکلوائیں۔‘

’ہڑپہ کے پتھروں اور اینٹوں سے لاہور، ملتان ریل کی پٹری بنی‘

لاہور ریلوے سٹیشن
لاہور ریلوے سٹیشن کی ابتدائی عمارت

رضا علی عابدی کے مطابق ’یہ صابن ساز پہلوان دیکھتے دیکھتے شہر کا رئیس ہو گیا۔ گورے حکام نے اپنی رپورٹس میں لکھا کہ بڑا ہی باکمال شخص ہے۔‘

’شاید اسی بنا پر محمد سلطان کو لاہور سے ملتان تک ریلوے لائن بچھانے کے لیے راستہ ہموار اور تیار کرنے کا ٹھیکہ دے دیا گیا۔ (ملتان اور لاہور کے درمیان 208 میل لمبی یہ ریلوے لائن 1864 میں تعمیر کی گئی۔)

وہ لکھتے ہیں کہ ’اس کے لیے لکڑی کے شہتیر اور سلیپر درکار تھے۔ سلطان نے مہاراجہ کشمیر کو اپنے کاروبار میں شامل کر لیا اور لکڑی کشمیرسے آنے لگی۔‘

’ریل کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ ڈالنے کے لیے پتھر درکار تھے۔ وہ اس علاقے میں دستیاب نہیں تھے۔ سلطان کی نگاہ ہڑپہ کے تاریخی کھنڈروں پر پڑی۔ سلطان نے قدیم تاریخ کے وہ آثار اجاڑ ڈالے اور ہڑپہ کی اینٹیں اور پتھر ریلوے لائن پر بچھا دیے۔‘

وہ مزید لکتھے ہیں کہ ’اور جب بہت مضبوط اینٹوں کی ضرورت پڑی تو محمد سلطان نے شہر لاہور میں مغل شہزادوں کی عمارتیں منہدم کر دیں اور داراشکوہ کے محل کھود کر ان کی بنیادوں سے بے حد پختہ اینٹیں نکال لیں۔‘

ایم ایس ناز ایسے مؤرخین کی تنقید کے جواب میں سلطان کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انھوں نے جو ڈھانچے گرائے، پرانے ہونے اور سکھ حکومت کی بے حسی کی وجہ سے محض کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے تھے۔ ان عمارتوں میں مغلیہ دور کی تباہ شدہ عمارتیں شامل تھیں، جن کی اینٹوں کو نئی عمارتوں اور دکانوں کی تعمیر نو میں استعمال کیا گیا۔‘

تاہم اپنی کتاب ’لاہور آوارگی‘ میں مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ ’سلطان ٹھیکے دار نے مغل عہد کے مقابر، مساجد، حویلیاں جو کھنڈر ہو چکے تھے کی اینٹیں استعمال کیں۔ [مگر] کہا جاتا ہے کہ اینٹوں کے حصول کے لیے کئی شاندار مغل عمارتیں جن میں مساجد بھی شامل تھیں اور وہ شاہی شان و شوکت سے ابھی قائم تھیں، انھیں بھی ڈھا دیا۔‘

’لاہور کا سلطان‘

سلطان تقریباً ڈیڑھ دہائی تک لاہورکی مرکزی شخصیت رہے۔ عدنان طارق اور محمد اقبال چاولہ کی تحقیق ہے کہ سلطان سنہ 1850 کے آخر تک بڑے ٹھیکے دار بن چکے تھے۔ ان کے پاس شہر اور اس کے گردونواح میں سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے مختلف کام تھے۔

’لاہور۔۔۔ گھر گلیاں دروازے‘ میں غافر شہزاد کا کہنا ہے کہ انگریزی عہد تک اکبر کے زمانے میں تعمیر ہونے والی دہلی دروازے کی عمارت بہت خستہ اور کمزور ہو گئی تھی۔ انگریزوں نے اس کی تعمیر نو کا ٹھیکہ محمد سلطان کو دیا۔

سنہ 1857 کے بعد لاہورکا قلعہ نما ریلوے سٹیشن بنانے کا سوچا تو نظرِ انتخاب پھر سلطان ہی پر پڑی۔

چین کی ایک یونیورسٹی کے لیے نوبادہ علی، زو چی کی لاہور ریلوے سٹیشن پر تحقیق میں لکھا ہے کہ ’پرانی اینٹیں آسانی سے دستیاب تھیں کیونکہ سٹیشن پرانے شہر کے کھنڈرات کے قریب بنایا گیا تھا۔ دوسرے لاہور ریلوے سٹیشن کے ٹھیکے دار میاں محمد سلطان پرانی دیسی اینٹیں بیچنے میں مشہور تھے۔ انھوں نے ان اینٹوں کو ریلوے سٹیشنوں، ریلوے بنگلوں اور دیگر عمارتوں میں بھی استعمال کیا۔ سنگ بنیاد پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر جان لارنس نے رکھا۔ سنہ 1860 میں لاہور سے امرتسر تک پہلی ٹرین چلائی گئی۔‘

سلطان ٹھیکے دار ’لاہور کا سلطان‘ کے طور پر پہچانے گئے اور لاہور شہر کے معززین میں شامل ہوئے۔

عابدی لکھتے ہیں کہ ’انگریز حکمرانوں کو ایسا کام کا آدمی کہاں ملا ہو گا۔ انھوں نے سنہ 1862 میں لاہور میونسپل کمیٹی بنائی تو محمد سلطان کو اس کا اعزازی رکن بنایا گیا۔ صابن فروش پہلوان نے اپنی مفلسی کو چت کر دیا۔‘

فلاحی کام

میاں سلطان

عابدی کہتے ہیں کہ ’دولت کے انبار پر براجمان ہونے کے بعد اس عظیم ٹھیکے دار کو غریب غربا، مسافروں اور غریب الوطن لوگوں کا خیال آیا تو شہر لاہور میں ایک سرائے بنوا دی جو آج بھی سلطان کی سرائے کہلاتی ہے۔‘

شیخ نوید اسلم کے مطابق ’میاں محمد سلطان نے لاہور ریلوے سٹیشن بنانے والے مزدوروں کو اس میں رہائش فراہم کی۔ ریلوے سٹیشن پانچ سال میں مکمل ہوا جس کے بعد اس سرائے کو لاہور آنے والے مسافروں کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔‘

انھیں کچھ مساجد کی تعمیر کا سہرا بھی جاتا ہے۔ انھوں نے سنہ 1852 میں لاہور میں حضرت سید صوف کی خانقاہ کی تجدید کی۔ تمام عمارتوں اور حویلیوں کے صحنوں میں لوگوں کے فائدے کے لیے کنویں بنائے۔

والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی سے منسلک تانیہ قریشی لکھتی ہیں کہ ’کہا جاتا ہے کہ سلطان نے بہت زیادہ خیرات کی، عوام کے لیے مساجد، کنویں اور دیگر کارآمد جگہیں بنوائیں۔‘

کاشف چودھری کے مطابق ’غریبوں نے بھی ان کی دولت سے فیض پایا اور کوئی سائل کبھی خالی ہاتھ نہ آیا۔ لنڈے بازار کو قائم اور آباد کرنے کے لیے براہِ فیاضی اپنی زندگی میں دکانداروں کو کرایہ بھی معاف رکھا۔ کئی مساجد بنوائیں۔‘

ایم ایس ناز اپنی کتاب ’لاہور نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سلطان کا دل خدا ترسی اور سخاوت کے جذبات سے معمور تھا۔ اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ غربا و یتامیٰ اور مسکینوں میں تقسیم کرنا اور خود سادہ زندگی بسر کرنا ان کا مسلک تھا۔ سادہ لباس کے ساتھ سفید پگڑی پہنتے تھے۔‘

’میزبانی، ہر طرح سے‘

ایم جے اسلم کے مطابق ’جب 1869 میں افغانستان کے امیر شیر علی خان (دور حکومت 1863-1879) لاہور آئے تو سلطان نے ان کے لیے ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا۔ انھوں نے افغان بادشاہ کو دو قیمتی گھوڑے تحفے میں دیے۔‘

’بدلے میں وہ افغان حکمران کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ برطانوی حکام کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات تھے۔‘

جب 1876 میں پرنس آف ویلز ایڈورڈ نے لاہور کا دورہ کیا تو میاں سلطان متنظمین کی اول صف میں تھے۔ بے پناہ تعریف اور تحسین کے مستحق ٹھہرے۔

حکام اکثر ان کی، تب شاید سلطان محل کہلاتی، حویلی جاتے تھے جس میں بھی، بقول اسلم کے ’پرانی اینٹیں استعمال ہوئی تھیں۔‘

گلی میاں سلطان، حویلی کے داخلی دروازے کی طرف لے جاتی ہے۔ حویلی کی تیسری منزل یا چھت پر مغلیہ طرز پر بنا ایک شاندار شیش محل ہے۔

لکھاری مستنصر حسین تارڑ نے کچھ عرصہ پہلے جب اس شیش محل کو دیکھا تھا تو بقول ان کے وہ دم بخود رہ گئے تھے۔

وہ لکھتے ہیں: ’بارشوں سے بھیگے خستہ کواڑ کو (اب اس حویلی میں رہنے والے) محمد نعمان نے دھکیلا تو سورج کی روشنی ہم سے پہلے اندر داخل ہوئی۔ ایک عجوبہ شیش محل کے آثار تھے جس کے اکھڑتے اور شکستہ ہوتے، بجھتے ہوئے شیشوں کو روشنی نے جگ مگ کر دیا تھا۔

شیش محل
حویلی میں واقع شیش محل

’سینکڑوں آراستہ شیشوں میں دھوپ کے چراغ روشن ہو گئے تھے۔ شاہی قلعہ کے شیش محل کی نسبت بہت مختصر لیکن ہو بہ ہو وہی بلکہ کسی حد تک خوشنمائی میں اس سے بہت بہتر اور دل کش۔‘

چوبیس سالہ نعمان دہلی دروازے کے اندر پاکستان مارکیٹ میں کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ شیش محل ثقافتی ورثہ ہے۔ سنہ 1867 میں تعمیر ہونے والی حویلی کا پانچواں حصہ، سترہ مرلے، ان کے پاس ہے۔

اسے ان کے دادا اور ان کے بھائیوں نے خریدا تھا۔ اس کے بائیس کمروں میں دو خاندان رہتے ہیں۔ اس کی چھتیں لکڑی کی ہیں۔

انھوں نے اپنی حیثیت کے مطابق یہاں مرمت کے کچھ کام کروائے ہیں لیکن جس قدر یہاں کام ہونے والا ہے وہ اُن کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس ثقافتی ورثے کی بحالی کی ضرورت ہے تاکہ یہاں سیاح آ سکیں۔

سنہ 2012 میں والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی نے شاہی گزرگاہ کے ایک حصے کے طور پر حویلی کے اگلے حصے پر کچھ مرمت کا کام کیا تھا۔

اتھارٹی سے منسلک تانیہ قریشی لکھتی ہیں کہ شیش محل کا نظارہ ناقابل یقین ہے۔ ’آئینوں پر منعکس ہوتی سورج کی کرنیں منظر کو جادوئی بنا دیتی ہیں۔ رات کے وقت یہ چاند کی روشنی میں زیادہ رومانوی ہو گا۔‘

شاید اسی پس منظرمیں تارڑ لکھتے ہیں کہ ’سلطان ہر رئیس کی مانند موسیقی اور رقص سے شغف رکھتے ہوں گے اور چھت کی علیحدگی میں تعمیر اس شیش محل میں انگریز صاحب بہادروں کی آؤ بھگت کرتے ہوں گے۔‘

چودھری لکھتے ہیں کہ ’سلطان نے امرا اور انگریز افسروں کے لیے لاہور کا پہلا باقاعدہ کسبی خانہ بھی سرائے کے قریب قائم کروایا۔‘

زوال کی داستان

عابدی کہتے ہیں کہ ’محمد سلطان نے آخری کارنامہ یہ سر انجام دیا کہ اینٹیں حاصل کرنے کی خاطر انھوں نے ستارہ بیگم کی مغل دور کی شان دار مسجد گرا دی۔

’اس کے ساتھ مدرسہ بھی تھا اورحجرے بھی تھے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ستارہ بیگم کی مسجد عام قیام گاہ بن چکی تھی اور اس میں انگریزی اخبار سول اینڈملٹری گزیٹ کا ایڈیٹر رہنے لگا تھا۔ کچھ بھی ہو، اس عمارت کا گرنا غضب ہوا۔

’محمد سلطان کے بنے بنائے کام بگڑنے لگے۔ انھوں نے اتنے زیادہ اور اتنے بڑے بڑے ٹھیکے لے لیے تھے کہ یہ کام ان کے بس کا نہ رہا۔ انگریز دوسرے ٹھیکے داروں کی خدمات حاصل کرنے لگے۔ یہاں تک کہ سنہ 1870 تک سلطان دیوالیہ ہو گئے۔‘

برطانوی دور کے ماہر تعمیرات، مؤرخ اور شاعر کنہیا لال ہندی اُن ہی دنوں میں لاہور میں رہتے تھے جب سلطان زندہ تھے، شاید ملے بھی ہوں مگر اپنی کتاب ’تاریخ لاہور‘ میں ملاقات کا تذکرہ کیے بغیر لکھتے ہیں: سلطان نے ’انگریزی عہد میں لاکھوں روپیہ کمایا۔ اگرچہ ناخواندہ وامی محض (ان پڑھ) تھا مگر بخت یاور تھے۔‘

’سرکاری بڑے بڑے مکانات و عالی شان عمارات اور چھاؤنیاں بنوائیں۔ اپنی خاص عمارتیں بھی تعمیر کیں۔ ایک عمدہ و عالی شان سرائے اور بازار اپنی یادگار چھوڑ گیا۔ اخیر عمر میں بسبب کثرت خرچ و کمی آمد، غبن و خیانت اہل کاران، خائن و غابن کے خار، کارخانہ اس کا بگڑ گیا۔ تمام جائیداد۔۔۔ رہن ہو گئی۔۔۔ اب آٹھ برس گزرے ہیں کہ محمد سلطان مر گیا۔‘

عابدی کہتے ہیں کہ ’(سلطان) اس حال میں مرے کہ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ بس یہ کہنے والے موجود تھے کہ سلطان نے ایک مسجد کیا گرائی، قدرت نے اسے اس گڑھے میں گرا دیا جسے عرف عام میں قبر کہتے ہیں۔‘

ایم جے اسلم لکھتے ہیں: ’کاروبار میں بڑا نقصان ہوا تو سلطان نے اپنی تمام ذاتی جائیدادیں گروی رکھ کر جموں و کشمیر کے مہاراجہ رنبیر سنگھ سے پانچ لاکھ روپے قرض لیا۔‘

’مہاراجہ نے زندگی گزارنے کے لیے 500 روپے ماہانہ پینشن مقرر کی۔ اب سلطان کی قسمت ماند پڑ چکی تھی۔ وہ قرضہ واپس نہ کر سکے اور جائیدادیں لوگوں کو فروخت کر دی گئیں۔ چار فروری 1876 کو وہ لاہور میں وفات پا گئے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں دفن ہیں۔

بے اولاد تھے سو آخری دنوں میں ان کے جوڑوں کے درد کے معالج، سراج الدین ان کے وارث ہوئے۔ انھی کی نسل میں کسی سے محمد نعمان کے دادا نے حویلی میاں سلطان خریدی ہو گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *