لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی زیر کمان

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی زیر کمان

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی زیر کمان پاکستانی فوج کی بہاولپور کور کی ملکی دفاع کے لیے سٹریٹیجک حیثیت اور اہمیت کیا ہے؟

بہاولپور کور کی بنیادی ذمہ داری جنوبی پنجاب کے صحرائی علاقے کا دفاع کرنا ہے۔ پاکستان کی جانب بہاولپور کور صحرائے چولستان میں تعینات ہے، جہاں سے بہاولپور، رحیم یار خان، وہاڑی، لودھراں، ملتان اور اوکاڑہ جیسے اہم شہروں کی پاسبانی کی جا رہی ہے۔

چونکہ پاکستان کی عسکری حکمت عملی پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں پر انڈین آرمڈ دستوں کی کسی پیش قدمی کے خلاف دفاع پر مبنی ہے جو ممکنہ طور پر ایسا علاقہ ہے جہاں پاکستان کی زمینی افواج کو انڈین ٹینکوں کے حملے کے خلاف مضبوط دفاع رکھنا ہے اور یہ بہاولپور کور کے آپریشن ایریا کے تحت اتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ایسا مکمل جنگ کی صورت میں ہی ہو گا۔

فوجی مشقیں

فوج کی بہاولپور کور کتنی اہم ہے؟

عسکری حکمت عملی کے ماہرین اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میدانی علاقے میں آرمڈ فارمیشن کی مربوط پیش قدمی کا دفاع کرنا مشکل ترین امر ہوتا ہے۔

عسکری محور کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی فوجی منصوبہ سازوں نے انڈیا کے ساتھ 2002 کی فوجی کشیدگی کے بعد زمین سے زمین پر کم فاصلے تک مار کرنے والے نصر بیلسٹک میزائل کے ساتھ ساتھ ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار اپنے جنگی منصوبوں میں شامل کیے چونکہ اس کشیدہ دور میں پاکستانی زمینی افواج کو متحرک کرنے کی لاگت انتہائی زیادہ تھی۔

ماہرین اور عسکری تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انڈیا کے ساتھ مستقبل میں فوجی تناؤ کی صورت میں نصر بیلسٹک میزائل کو ممکنہ طور پر بروئے کار لانا بہاولپور کور کی کمانڈ کے تحت ہو گا، یہ وہ علاقہ ہے جہا ں سے پاکستانی عسکری منصوبہ سازوں کو انڈین آرمڈ دستوں کی پیش قدمی کا اندیشہ ہے۔

پاکستان کی جوہری حکمت عملی اور نظریہ فیلڈ کمانڈرز کو جوہری ہتھیار تفویض کرنے کا عندیہ نہیں دیتا لیکن مکمل جنگ صورتحال کو ڈرامائی اور خوفناک حالات میں تبدیل کر سکتی ہے لہٰذا خالصتاً عسکری نقطہ نظر سے بہاولپور کور سٹرٹیجک طور پر پاک فوج کی زمینی فورسز کی اہم ترین فارمیشن ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تبادلہ اور بہاولپور کور

جنرل فیض حمید
لیفٹینٹ جنرل فیض حمید

ماہرین اور عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے پشاور کور سے بہاولپور کور میں تبادلے پر سیاسی شور و غوغا عسکری امور اور معاملات پر پاکستانی سیاسی طبقے کی سوجھ بوجھ کے یکسر فقدان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں بسا اوقات یہ ہوا ہے کہ سینئر افسران کے تقرر اور تبادلوں کو میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اُن سے ہمدردی رکھنے والوں نے موضوع بحث بنایا ہے۔

سنہ 1991 میں جب ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ نے کور کمانڈر کے طور پر پوسٹ آﺅٹ کیا تھا اس وقت بھی یہ موضوع بحث تھے۔

یاد رہے کہ سابق جنرل حمید گل نے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کی کمانڈ سنبھالنے سے انکار کر دیا تھا اور پھر زبردستی انھیں نوکری سے ریٹائر کر دیا گیا تھا۔

جنرل حمید گل

اس وقت دائیں بازو کے میڈیا نے واویلا شروع کر دیا تھا کہ جنرل گل کی نئی تقرری ان کے مقام اور مرتبے کے مطابق نہیں۔ سابق جنرل حمید گل کی عوام میں مقبولیت افغان جنگ میں ان کے عمل دخل کی وجہ سے بڑھی تھی۔

اس سے ملتی جلتی صورتحال اس بار بھی سامنے آئی جب سوشل میڈیا پر بعض حلقوں کی طرف سے کہا گیا کہ بہاولپور کور میں تعیناتی جنرل فیض حمید کے لیے ایک طرح کی تنزلی ہے۔

گذشتہ دہائی میں بہاولپور کور کی کمانڈر کرنے والے ایک ریٹائرڈ آرمی جنرل نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘بعض لوگ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی بہاولپور تعیناتی کے بارے میں غلط اندازہ لگا رہے ہیں اور ان کی یہ سوچ صحیح نہیں کہ اس تبادلے کا مطلب اُن کی تنزلی ہے۔’

سنہ 2000 کے آغاز میں بہاولپور کور کی کمانڈ کرنے والے ایک سابق کور کمانڈر نے کہا کہ ‘بہاولپور کور ملک کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔۔۔ یہ سٹرٹیجک ہتھیاروں کو سنبھالتی ہے، یہ پاکستان آرمی کے اسلحہ خانہ میں موجود سب سے جدید ترین ہتھیاروں کو استعمال کرتی ہے اور متعدد مواقع پر اس نے دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا ہے۔’

بہاولپور کور کب کب خبروں میں رہی؟

فوجی مشقیں

پاکستان آرمی کی ‘بہاولپور کور’ فوج کی ایسی کور نہیں جس کے بارے میں مقامی میڈیا میں آئے روز شہ سرخیاں شائع ہوتی ہوں تاہم حالیہ تاریخ میں دو تین بار ہی ایسا ہوا کہ بہاولپور کور کا نام پاکستان کے گھر گھر پہنچ گیا۔

پہلی بار یہ نام اس وقت بچے بچے کی زبان پر آگیا تھا جب سنہ 1986 کے وسط میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان سرحدی کشیدگی جاری تھی۔

پاکستانی سرحد کے قریب انڈین فوج نے کور سطح کی فوجی مشقیں شروع کر دی تھیں۔ اس وقت ‘بہاولپور کور’ کی کمانڈ میں پاکستانی فوجی منصوبہ سازوں نے انڈیا کی فوجی اور عسکری قیادت کے زعم اور ارادوں کو شکست دے دی تھی۔

دسمبر 1986 کے وسط میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان فوجی کشیدگی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی۔ انڈین میڈیا نے دسمبر 1986 کے وسط میں کسی موقع پر یہ خبر دی تھی کہ پاکستان کی آرمڈ ریجمنٹ بہاولپور سے حالت امن کے مقام سے جنوب کی طرف حرکت کر رہی ہے اور اس کا رُخ سرحد کی طرف ہے۔

سرحد کے دونوں جانب ہی نہایت پراسرار سرگرمیاں اور نقل وحرکت جاری تھی۔ پاکستان کی فضائیہ نے نومبر 1986 میں ‘ہائی مارک’ مشقیں شروع کردی تھیں۔

یہ مشقیں ختم ہو جانے کے باوجود پاک فضائیہ اپنے سیٹلائیٹ فوجی اڈوں کو پوری صلاحیت سے چلا رہی تھی۔ بری حملہ آور فوج جسے ‘پاکستان ریزرو نارتھ’ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے بھی انڈیا کی سرحد کے قریب شکر گڑھ میں مشقیں شروع کر دی تھیں۔ پاکستان کی طرف سے تمام اگلے مورچوں اور دوسرے دفاعی حصار پر مامور افواج کو اسلحہ و گولہ بارود سے لیس کیا جا چکا تھا۔ عام آبادی کو دیگر محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا گیا تھا جبکہ سرحد کے قریب پلوں پر بارودی سرنگیں بچھا دی گئی تھیں اور سرکاری ملازمین کی چھیٹیاں بھی منسوخ کر دی گئی تھیں۔

پاکستان آرمی کے ایک ریٹائر سینئر افسر نے بتایا کہ ‘ان اعصاب شکن گھڑیوں میں بہاولپور کور کو فوجی اثاثوں میں سے قوت فراہم کی گئی جنھوں نے انڈیا کی زمینی فوج کو عالمی سرحد سے واپس دھکیلنے میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔’

دوسری مرتبہ بہاولپور کور اس وقت شہہ سرخیوں کی زینت بنی جب اگست 1988 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق کے طیارے کے گر کر تباہ ہونے اور ان کی ہلاکت کی خبر آئی۔

جنرل ضیا الحق

امریکی ساختہ ابرام ٹینکوں کی عملی مشق دیکھنے کے لیے جنرل ضیاالحق بہاولپور کور کے علاقے خیرپور ٹامیوالی گئے تھے۔

اس وقت کے کور کمانڈر بہاولپور کے اصرار پر جنرل ضیا نے امریکی ابرام ٹینکوں کی عملی مشق دیکھنے کے لیے آنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ واپسی پر ان کا فوجی طیارہ ‘سی 130’ گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس طیارے کے گرنے سے اس وقت کی پوری آرمی کمان ہی ختم ہوگئی تھی۔

ضیا الحق کا طیارہ تباہ

بہاولپور کور کے چند افسران شک کے گھیرے میں آ گئے تھے اور طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ نے اُن پر شدید تنقید کی تھی۔

آج ایک بار پھر بہاولپور کور شہ سرخیوں میں ہے۔ اِس بار اِس کی وجہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی کور کمانڈر بہاولپور تعیناتی ہے جو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور اس کے بعد کور کمانڈر پشاور کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ تبادلے کئے ہیں جو آرمی چیف کی ہدایت پر ایک معمول کا عمل سمجھا جاتا ہے۔

بہاولپور کور کی سٹریٹیجک حیثیت

پاکستان آرمی کا مقولہ ہے کہ عام طور پر دو، تین یا اس سے زیادہ ڈویژنز پر مشتمل کور کی کمان ایک لیفٹیننٹ جنرل کرتا ہے۔

31 ویں کور یا بہاولپور کور 1986 یا 1987 میں بنی تھی، یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کو انڈیا کی فوج کی طرف سے زمینی جارحیت کا بہت زیادہ خطرہ لاحق تھا۔

انڈین فوج ‘براس ٹیکس’ کے نام سے خطے میں سب سے بڑی فوجی مشق کر رہی تھی۔ 31 ویں کور کا ہیڈکواٹر بہاولپور میں واقع ہے جس کے تین مکمل حجم کے ڈویژنز ہیں۔

پنجاب کے صحرائی خطے کا دفاع اور سلامتی اس کی زمہ داریوں میں آتی ہے۔

فوجی مشقیں

ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘پاکستان کی فوج کے کلچر میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ افسران ترجیحی لڑاکا آرمز میں سے آرمڈ کور میں شمولیت کو ہمیشہ پسند کرتے ہیں جس کے بنیادی اجزا ملکی فوج کی ہر کور میں انفینٹری فارمیشن کے ساتھ تعینات ہوتے ہیں۔

ریٹائرڈ فوجی جنرل نے کہا کہ بہاولپور کور کے آپریشن ایریا کے تحت آرمڈ بریگیڈ پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی لینڈ فورسز بنیادی طور پر ہیوی انفینٹری آرمی کی حامل ہیں اور بہاولپور کے آپریشن ایریا میں تین انفنٹری ڈویژن خدمات انجام دے رہی ہیں جو جنوبی پنجاب کے صحرائی علاقے کی سرحد سے لے کر اوکاڑہ شہر میں وسطی پنجاب تک پھیلی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ ایک فری انفینٹری بریگیڈ اور ایک فری آرٹلری بریگیڈ بھی بہاولپور کور کے تحت خدمات انجام دے رہی ہے، انجینیئر اور سنگلز کی فری فارمیشنز بھی اس کی کمان کے تحت ہیں۔

اس کور کو پاکستان کے بعض نامور فور سٹار جنرل کمان کر چکے ہیں۔ ان میں سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، جنرل شمیم عالم خان اور جنرل زبیر محمود حیات، سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد یوسف شامل ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *