سوات کی خوبصورتی کا سیلاب کی تباہی

سوات کی خوبصورتی کا سیلاب کی تباہی

سوات کی خوبصورتی کا سیلاب کی تباہی سے کیا تعلق ہے؟

سوات خوبصورت ہے اور اس کی یہی خوبصورتی گذشتہ برس سیلاب میں یہاں کے لوگوں کے لیے تباہی کا سبب بھی بنی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے؟ آگے چل کر دیکھتے ہیں۔

پہلے ہی دن سے سوات کے پہاڑوں میں جہاں بھی میں جا رہا ہوں یہاں کی عمارتوں کے بارے میں ایک ہی سوال ذہن میں ابھرتا ہے، کیا اسے اس جگہ ہونا چاہیے تھا؟

یہاں آنے سے پہلے میں گلگت بلتستان سے ہو کر آ رہا تھا اور میں نے وہ ویڈیوز بھی دیکھ رکھیں تھیں جن میں سیلاب کے دوران سوات اور کالام میں پورے کے پورے ہوٹل پانی کے ساتھ بہہ گئے تھے۔

میرے ذہن میں یہ تاثر تھا کہ شاید صرف چند ہوٹل غلط جگہ پر بنے ہوئے تھے جو تباہ ہوئے ہوں گے۔ اسی تاثر کے ساتھ میں بحرین پہنچا۔

یہاں شہر میں میری ملاقات ڈاکٹر شاہ محمد سے ہوئی۔ وہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں اور اس علاقے کے جانے پہچانے سیاسی اور سماجی کارکن بھی ہیں۔ بحرین کی وادی میں زیادہ تر لوگ انھیں جانتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہ محمد نے مجھے بتایا کہ ’یہاں اب تک کئی دیہات ایسے ہیں، جن کا رابطہ نیچے کے علاقوں سے سڑکوں کے ذریعے بحال نہیں ہو پایا۔‘ میں نے پہلے اسی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ میں یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ وہاں کے لوگ ضروریاتِ زندگی کیسے اوپر پہنچا رہے ہیں۔

میرے ذہن میں یہ سوال بھی ہے کہ وہاں اگر کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو کیا وہ وقت پر ہسپتال پہنچ پاتا ہے۔ حاملہ خواتین کے لیے یہ صورتحال کتنی خطرناک ہو گی؟ لیکن اس تمام کے ساتھ میں بنیادی طور پر یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آخر اس علاقے میں سڑکیں ختم کیسے ہو گئیں اور ایسی کیا مشکل تھی کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود دوبارہ نہیں بن پائیں؟

ہم نے بحرین شہر سے اوپر دریائے درال کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کی طرف سفر شروع کیا۔ چند کلو میٹر پکی سڑک تھی لیکن پھر اچانک سڑک ختم ہو جاتی۔ ختم سے میری مراد ہے کہ بالکل ختم ہو جاتی ہے۔

دریا کے دوسری طرف پہاڑ پر جو سڑک تھی وہ بھی بہہ چکی ہے اور ان دونوں کو ملانے والا پل بھی جا چکا ہے۔ یہاں پر پانی ذخیرہ کرنے کا ایک چھوٹا سا ڈیم بنا ہوا ہے، جو نیچے بحرین میں ایک پاور پلانٹ کے لیے پانی مہیا کرتا ہے۔

یہاں کافی لوگ جمع ہیں۔ کچھ سامان اپنی کمر پر باندھ رہے ہیں اور کچھ اوپر پہاڑوں سے سامان لائے ہیں جو وہ یہاں کھڑی گاڑیوں پر لاد رہے ہیں۔ ان میں فروٹ کی پیٹیاں زیادہ نظر آ رہی ہیں۔ یہ پیٹیاں لوگ یہاں تک کمر پر لاد کر کئی گھنٹے کا سفر کر کے اس مقام تک پہنچے ہیں۔

وہ گھر جو کبھی قریب تھے

انھی لوگوں میں خورشید احمد بھی شامل ہیں۔ اب وہ واپس گاوں کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کا گھر ویسے تو یہاں سے زیادہ دور نہیں تھا لیکن اب ہو گیا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ویسے تو مجھے یہاں سے موٹرسائیکل یا گاڑی پر پانچ منٹ لگنے تھے لیکن اب ایک گھنٹہ لگے گا۔‘

واپسی پر ان کے پاس خوش قسمتی سے سامان زیادہ نہیں لیکن ان کے ساتھ گروپ کی شکل میں اوپر جانے والوں میں بہت سے لوگ ایسے تھے جن کے پاس راشن کی بوریاں، بچوں کے سکول کے لیے خیمے اور دیگر سامان کے بھاری بھرکم تھیلے ہیں۔

اس طویل سفر کا آغاز ہی خطرناک ہے۔ ان لوگوں نے پہلے کئی فٹ طویل اور اونچا لکڑی کا وہ عارضی پل عبور کرنا ہے جو سیلاب گزر جانے کے بعد یہاں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا تھا۔ یہ پل محض دو فٹ چوڑا ہو گا۔

سوات

ہسپتال جو دور ہو جاتے ہیں

خورشید احمد کے ساتھ ان کے گاؤں کی طرف جاتے ہوئے میں اس پل سے گزرنے ہی والا تھا جب ہمیں سامنے سے کچھ لوگ سٹریچر نما ایک چیز کندھوں پر اٹھا کر آتے دکھائی دیے۔ خورشید احمد نے بتایا کہ یہ کوئی مریض ہے۔

یہ لوگ کئی کلومیٹر دور سے اسے کندھوں پر اٹھا کر لا رہے تھے۔ دو لکڑیوں کے درمیان کپڑے کی مدد سے سٹریچر بنایا گیا تھا۔ میرا اگلا سوال ان سے یہ تھا کہ اگر کسی حاملہ خاتون کو ڈیلیوری کے لیے ہسپتال منتقل کرنا ہو تو کیا ہو گا؟

خورشید احمد کہتے ہیں ’ایسے ہی ان کو بھی منتقل کیا جاتا ہے۔‘ وہ خود ذاتی طور پر اس اذیت سے گزر چکے تھے۔ سنہ 2010 کے سیلاب میں ان کی اہلیہ کی موت بھی وقت پر ڈیلیوری کے لیے ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے ہو گئی تھی۔

’اس وقت بھی اسی طرح پل اور سڑک ٹوٹ گئے تھے اور راستہ ختم ہو گیا تھا۔ وہ کئی گھنٹے تاخیر سے جب ہسپتال پہنچیں تو ان کی جان بچانا مشکل ہو چکا تھا۔‘

خورشید احمد کہتے ہیں انھیں نہیں معلوم کہ ابھی مزید کتنا عرصہ یہاں کے لوگوں کو ایسے ہی بغیر سڑک کے گزارنا ہو گا۔

اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں خورشید احمد نے مجھے بچوں کا گاؤں میں وہ واحد سکول بھی دکھایا جو 2010 کے سیلاب میں بہہ جانے کے بعد ابھی دو برس قبل دوبارہ تعمیر ہوا تھا۔ اس مرتبہ کا سیلاب اس کا صحن بہا کر لے گیا تھا۔

سوات، خورشید شاہ
خورشید احمد کہتے ہیں انھیں نہیں معلوم کہ ابھی مزید کتنا عرصہ یہاں کے لوگوں کو ایسے ہی بغیر سڑک کے گزارنا ہو گا

خورشید احمد کا گھر کیسے بچ گیا؟

ہمیں خورشید احمد کے گھر پہنچتے ایک گھنٹہ لگا۔ انھوں نے اپنا گھر قدرے بلندی پر بنا رکھا ہے۔ اسی لیے وہ بچ بھی گیا۔ ورنہ ان کے گاؤں کے زیادہ تر گھر ہستی ہی سے مٹ گئے تھے۔

’اس وقت اندھیرا تھا جب سیلاب یہاں سے گزر رہا تھا۔ اتنی زور کی اور خوفناک آواز تھی کہ بیان نہیں کر سکتا۔ پوری زمین لرز رہی تھی۔ نیچے والے کچھ ہمسائے اوپر میرے گھر میں آ گئے تھے کیونکہ میرا گھر ذرا اونچائی پر بنا ہے۔‘

خورشید احمد کے لیے اونچائی پر گھر بنانے کا فیصلہ سود مند ثابت ہوا۔ ان کے گھر کے پہلو میں ایک ڈھلان ہے جہاں سے لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہو سکتا تھا۔ اس کو متوازن کرنے کے لیے انھوں نے اس پر چیک ڈیم بنا رکھا ہے۔ اس طریقے میں زمین کو سیڑھیوں کی مانند تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

خورشید احمد نے مجھے بتایا کہ ان تمام اقدامات کی وجہ سے ان کا گھر اور مال مویشی زیادہ تر محفوظ رہے تھے۔

’جن لوگوں کے نیچے دریا کے بالکل قریب گھر تھے وہ تباہ ہو گئے۔ سڑک جو 2010 کے سیلاب کے بعد بنائی گئی تھی وہ بھی زیادہ اونچی نہیں تھی۔‘

اس سڑک کے ساتھ اس کو بچانے کے لیے جو دیوار بنائی گئی تھی وہ بھی سیلاب میں بہہ گئی۔ یہاں بھی میرے ذہن میں وہی سوال تھا کہ کیا اس سڑک کو، ان گھروں کو اور سکول کو یہاں نیچے ہونا چاہیے تھا؟ کیا یہ منصوبہ کے دوران ہی تھوڑے اونچائی پر بنائے جا سکتے تھے؟

خورشید احمد کے گھر کی مثال اور اس علاقے کو عمومی طور پر دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہ اونچائی پر بنائے جا سکتے تھے۔

سوات

گھر اونچے کیوں نہیں بنائے گئے؟

خورشید احمد کے گھر سے واپسی پر ہم بحرین شہر کی طرف چل دیے۔ میں وہ بازار دیکھنا چاہتا تھا جو سیلاب کے دنوں میں دریا کا منظر پیش کر رہا تھا۔

یہ بحرین کا مین بازار ہے۔ جہاں سے یہ شروع ہوتا ہے اس سے تھوڑا پہلے مغرب کی سمت سے دریائے درال آ کر شمال سے آنے والے دریائے سوات کے ساتھ ملتا ہے۔

دریائے درال کے ساتھ ساتھ بھی دونوں اطراف ہوٹلوں کی عمارتیں ہیں اور دریائے سوات کے ایک طرف بھی ہوٹلوں کی عمارتیں ہیں۔ دریا کے پانی کو صرف اتنا راستہ دیا گیا ہے کہ وہ ایک طرف پہاڑ اور دوسری طرف ہوٹلوں کی نیچے والی منزلوں سے لگ کر چلتا ہے۔

یہاں اس کا پاٹ بمشکل 15 فٹ چوڑا ہو گا۔ جہاں دونوں دریا ملتے ہیں وہاں بھی تعمیرات موجود ہیں۔

ڈاکٹر شاہ محمد نے مجھے بتایا کہ جب سیلاب آیا تو اس مقام پر ایک چھوٹا سا ڈیم بن گیا تھا ’کیونکہ دونوں دریاؤں کا پانی آپس میں مل گیا تھا اور آگے جانے کے اس کے پاس راستہ تنگ تھا۔‘

جس بازار کے اندر سے دریائے سوات میں سیلاب کا پانی گزرا تھا اس پر موجود درجنوں ہوٹل تباہ ہو چکے ہیں۔

اس بازار سے جیسے ہی باہر نکلیں تو بالکل سامنے دریائے سوات بل کھا کر سیدھا ہوتا ہے۔ وہ سیدھا آپ کی طرف آ رہا ہے۔

اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تمام ہوٹل بنیادی طور پر دریا کی زمین ہی پر بنے ہوئے ہیں۔ دریا میں جب بھی بڑا سیلاب آتا، پانی نے اس طرف آنا ہی آنا تھا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ یہ عمارتیں یہاں بننے کی اجازت کیسے دی گئی؟

سوات، سیلاب

’یہاں تو کوئی نہیں پوچھتا‘

یہ منظر صرف بحرین کا نہیں بلکہ یہاں سے چند کلومیٹر شمال کی جانب ایک خوبصورت وادی منکیال آتی ہے۔

یہاں احسان اللہ نے سیلاب آنے سے لگ بھگ چھ ماہ قبل تین کروڑ روپے خرچ کر کے ایک ہوٹل تعمیر کیا تھا۔ اب اس جگہ پر صرف خالی پلاٹ ہے۔ اوپر سے آنے والا برساتی نالہ فلیش فلڈ میں ان کا ہوٹل اور دیگر کئی عمارتیں بہا کر لے گیا۔

احسان اللہ کہتے ہیں کہ ’یہاں کوئی بھی عمارت بنانے سے پہلے کسی حکومتی ادارے کی منظوری ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ یہاں تو کوئی ایسا نظام نہیں۔‘

میرا احسان اللہ سے بھی یہی سوال تھا کہ وہ جب اونچائی کی طرف بنا سکتے تھے تو انھوں نے ہوٹل نیچے کیوں بنایا۔

احسان اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت نالے میں بہنے والا پانی اس مقام سے ہزار فٹ دور تھا۔ ’ہم نے تو یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنا زیادہ سیلاب آ جائے گا اور یہاں کوئی ایسا نظام بھی نہیں کہ کوئی ہمیں بتاتا کہ یہاں نہیں بنا سکتے، اگر منع کرتے تو ہم کیوں بناتے، کیوں اپنا نقصان کرتے۔‘

’اپنی زمین کو چھوڑ کر کہاں جاِئیں، کون ہمیں جگہ دے گا‘

احسان اللہ اکیلے نہیں۔ جنت خان ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا گھر سیلاب میں بہہ گیا۔ سنہ 2010 میں بھی ان کا گھر بہہ گیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے وہیں دوبارہ تعمیر کر لیا۔ پھر بہہ گیا۔

جنت خان نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ ان کے پاس اور کوئی چارا نہیں۔ ’کیا کریں جہاں ہماری زمین ہو گی اس کو چھوڑ کر اور کہاں جاِئیں گے۔ کون ہمیں جگہ دے گا۔‘

ان کے پاس صرف ایک کمرہ بچا ہے۔ ان کے پڑوسی کا گھر پورے کا پورا چلا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس بات کا علم ہے کہ یہاں گھر دوبارہ بنانا نقصان دہ ہو گا لیکن ان کے اتنے وسائل نہیں کہ وہ کہیں اور جا کر زمین خرید کر وہاں گھر بنا سکیں۔ یہ زمین بھی انھیں اس لیے سستی مل گئی تھی کیونکہ یہ خطرناک تھی۔ کوئی خریدتا نہیں تھا۔

’حکومت والے آتے ہیں تو ہم انھیں کہتے ہیں کہ آپ ہمیں جگہ دے دو تو ہم بنا لیں گے۔ ہمارے اپنے پاس تو اتنے وسائل نہیں ہیں۔‘ وہ دوبارہ گھر اسی جگہ پر مرمت کر کے کھڑا کر رہے ہیں۔

سوات

سوات کی خوبصورتی کا تباہی سے کیا تعلق؟

یہاں سے نیچے وادی بحرین میں بھی دریائے درال نے جو بڑے بڑے گھر تباہ کیے وہ دریا کی زمین پر یا اس کے بہت قریب بنے ہوئے تھے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کے ریور ایکٹ کے مطابق دریا سے 200 فٹ کے فاصلے کے اندر تعمیرات نہیں کی جا سکتیں۔

لیکن میں نے جو دیکھا اس میں جہاں بھی سیلاب نے عمارتوں کا نقصان کیا وہاں اس اصول کی پابندی نہیں کی گئی تھی۔ ان تمام عمارتوں کو دیکھنے کے بعد اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ لوگ ایسی جگہوں پر تعمیرات کیوں کرتے ہیں جہاں سے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔

سوات کی خوبصورتی سیاحوں کو یہاں کھینچ کر لاتی ہے۔ اس علاقے کی معیشت اسی سیاحت پر چلتی ہے۔ ہوٹل اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاحوں کو ’بہترین ویو‘ دینے کے لیے ہوٹل دریا کے قریب ترین بنایا جاتا ہے۔

وہ کمرہ جس کی کھڑکی کے بالکل نیچے دریا بہہ رہا ہو اس کا کرایہ سب سے زیادہ ہو گا۔ اس طرح ہوٹلوں سے جڑی دیگر صنعت بھی ان کے قریب ہی قیام کرتی ہے۔ نتیجتاً سڑکیں اور پلیں بھی نیچے بنتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بناتے وقت سیلاب کے امکانات کو سامنے نہیں رکھا جاتا۔اور یہی یہاں سیلاب سے تباہی کی بڑی وجہ نظر آتی ہے۔

سوات

کیا دریا کے کنارے طویل حفاظتی دیوار بنانا ممکن بھی ہے؟

یہاں آبادی کو بچانے کے لیے دریا کے ارد گرد زیادہ مقامات پر حفاظتی دیواریں بھی نظر نہیں آئیں۔ جہاں وہ موجود تھیں وہاں انھوں نے بہترین کام کیا۔ اس کی ایک نمایاں مثال خیبرپختونخوا کا میدانی علاقہ نوشہرہ ہے۔

جب میں چارسدہ سے نکل کر نیچے نوشہرہ پہنچا اور دریائے کابل کے کنارے گیا تو بے اختیار میں مسکرا اٹھا۔ یہ وہ مسکراہٹ تھی جو اس وقت آتی ہے جب آپ کے خیال کی تصدیق عملی طور پر سامنے نظر آ جائے۔

دریائے کابل کے دونوں طرف کئی کلومیٹر لمبی پکی دیوار دیکھ کر میرے ان دو خیالات کی تصدیق ہو گئی کہ ایک تو اتنی لمبی دیوار بنانا ممکن ہے اور دوسرا یہ کہ یہ طریقہ کارآمد بھی ہے۔ اس دیوار کی وجہ سے اس مرتبہ نوشہرہ میں سیلاب سے نقصان کم ہوا تھا۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ طریقہ دیگر مقامات پر بھی اپنایا جا سکتا تھا لیکن مجھے زیادہ جگہوں پر نظر نہیں آیا۔ جہاں حفاظتی دیوار بنائی بھی گئی تھی، موزوں پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے وہ سیلاب کے ساتھ ہی بہہ گئی تھی۔

سوات

یہ سارا پانی نیچے دریائے سندھ میں کیوں چلا گیا؟

دریائے سوات چارسدہ سے صوبے کے میدانی علاقوں میں داخل ہوتا ہے اور نوشہرہ سے تھوڑا پہلے یہ دریائے کابل میں شامل ہو جاتا ہے لیکن کابل میں شامل ہونے سے پہلے یہ چارسدہ میں منڈہ ہیڈ ورکس کو توڑ کر گیا۔

منڈہ ہیڈورکس سے دو اہم نہریں نکالی جاتی ہیں جو پشاور کی وادی کے بڑے رقبے کو سیراب کرتی ہیں۔ ہیڈورکس کے ٹوٹنے سے ان میں پانی کی فراہمی معطل ہو گئی۔

سیلاب نے 2010 میں بھی اس ہیڈ ورکس کو توڑا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مرتبہ منڈہ ہیڈ ورکس اور نیچے چارسدہ اور نوشہرہ کے علاقے سیلاب سے بچ سکتے تھے اگر منڈہ ہیڈ ورکس سے پانچ کلو میٹر اوپر زیرِ تعمیر مہمند ڈیم مکمل ہو چکا ہوتا۔

اس ڈیم کا منصوبہ سنہ 2000 میں بنا تھا اور اس پر کام شروع ہونے میں 19 برس لگ گئے۔ یہ اب تک مکمل نہیں ہو پایا۔ اگر یہ ڈیم ہوتا تو دریائے سوات میں آنے والا لاکھوں کیوسک پانی ذخیرہ بھی کیا جا سکتا تھا اور یہ پانی نیچے میدانی علاقوں کی طرف جا کر تباہی بھی نہ کرتا۔

اس مرتبہ دریائے کابل کے کیچمنٹ ایریا میں بارشیں بہت زیادہ ہوئی تھیں۔ اس میں دریائے سوات کا سارا پانی بھی شامل ہو گیا۔ یہ تمام پانی دریائے کابل کے ذریعے اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو گیا۔

دریائے سندھ اس سارے پانی کو نیچے پنجاب کی طرف لے گیا لیکن کیا نیچے پنجاب میں زیادہ نقصان سندھو کے اس سیلابی پانی نے کیا یہ دیکھنے کے لیے میں یہاں سے صوبہ پنجاب میں داخل ہوں گا۔

پاکستان میں 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی وجوہات پر بی بی سی کی خصوصی سیریز چار اقساط پر مشتمل ہے۔ ان وجوہات کی تلاش میں بی بی سی کی ٹیم نے ملک کے شمالی علاقوں سے نیچے جنوب کی طرف دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سفر کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے پیچھے زیادہ ہاتھ موسمیاتی تبدیلی کا یا پھر حکومتی بدانتظامی کا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *