سال سے پاکستان میں پھنسے والد کی منتظر بیٹی

سال سے پاکستان میں پھنسے والد کی منتظر بیٹی

 سال سے پاکستان میں پھنسے والد کی منتظر بیٹی خدا کے لیے یہ رکاوٹیں دور کریں تاکہ میں اپنے باپ کے سینے لگ سکوں

میرے پاؤں قبر میں ہیں۔ بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں۔ چالیس سال تک ایک تکلیف دہ زندگی گزاری۔ چالیس سال پہلے اپنے بیوی، بچوں، ماں باپ کو سفری کاغذات گم ہو جانے پر کھو دیا۔ اب دوبارہ ملے ہیں تو ان سے ملاقات میں دوبارہ میرے سفری کاغذات حائل ہوچکے ہیں۔ مجھ بے بس پر رحم کرو۔ اس عمر میں اپنے بیوی، بچوں سے ملا دو۔‘

یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر پتوکی کے قاری عبدالکبیر کا، جن کا تعلق تو بنگلہ دیش کے ضلع بیگرہاٹ کے نواحی قصبے سے ہے مگر وہ تقریباً چالیس سال سے پاکستان کے صوبہ پنجاب اور زیادہ تر پتوکی کے علاقے میں رہ رہے ہیں۔

اس دوران ان کا اپنے بیوی، بچوں اور خاندان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔ حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا اپنے بیوی بچوں، جس میں ان کی اہلیہ، بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، کے ساتھ رابطہ بحال ہوا۔

چالیس سال قبل جب قاری عبدالکبیر اپنے خاندان سے بچھڑے تھے تو اس وقت ان کی اہلیہ حاملہ تھیں۔ ان کے بچھڑنے کے بعد ان کی چھوٹی بیٹی محمودہ اطہر صائمہ کی پیدائش ہوئی تھی۔

محمودہ اطہر صائمہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا۔ انھوں نے مجھے گود نہیں اٹھایا۔ میں ساری زندگی اپنے والد کے لیے تڑپتی رہی ہوں۔ اب وہ مل گے ہیں تو ان کے بنگلہ دیش آنے میں رکاوٹیں ہیں۔ خدا کے لیے یہ رکاوٹیں دور کرو کہ میں اپنے باپ کے سینے سے لگ سکوں۔ ‘

قاری عبدالکبیر کی شناخت کیسے ممکن ہوئی یہ آگے چل کر دیکھتے ہیں۔ پہلے اس پر نظر ڈالتے ہیں کہ قاری عبدالکبیر کے ساتھ چالیس برس پہلے ہوا کیا تھا؟

قاری کبیر

’انڈیا کے راستے پاکستان پہنچا‘

قاری عبدالکبیر معمر ہو چکے ہیں اور ان کی یاداشت بھی کمزور ہو رہی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے کئی واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ بھول چکے ہیں مگر اپنے علاقے، والدہ، بہن بھائیوں کے حوالے سے انھیں سب کچھ یاد ہے۔ اس کے علاوہ بچپن میں حفظ کیا ہوا قران انھیں ابھی بھی اچھے سے یاد ہے۔

قاری عبدالکبیر کو یاد ہے کہ جب وہ بنگلہ دیش سے انڈیا کے راستے پاکستان کے لیے چلے تھے تو اس وقت ان کی اہلیہ حاملہ تھیں اور بعد میں ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی۔

اس وقت ان کی یہ سب سے چھوٹی بیٹی محمودہ اطہر صائمہ چالیس سال کی ہیں اور دو بچوں کی ماں بھی ہیں۔

قاری عبدالکبیر کہتے ہیں کہ ’اپنے علاقے کو چھوڑنے کی وجہ اپنے اہلخانہ کی غربت تھی۔ چالیس سال قبل سوچا کہ انڈیا کے راستے پاکستان جاتے ہیں۔ جہاں پر تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت گزارنے کے علاوہ محنت مزدوری کرکے اپنے اہلخانہ کی تکالیف کو کم کروں گا مگر تکالیف کم کیا ہوتیں بلکہ بڑھتی ہی چلی گئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے انڈیا پہنچا تو وہاں سے پاکستان آنے کے حالات اچھے نہیں تھے۔ بارڈر پر بہت سختی ہوتی تھی۔ جس کے بعد میں نے انڈیا ہی میں ایک مسجد میں امامت شروع کر دی تھی۔ وہاں پر مجھے مہینے کے سو روپے ملتے تھے۔ ‘

قاری عبدالکبیر کہتے ہیں کہ ’اس دوران مجھے انڈیا کا بارڈر کراس کرنے کا موقع ملا گیا۔ یہ کوئی اتنا آسان نہیں تھا۔ میرے پاؤں میں چوٹ لگ گئی تھی۔ میں کسی نہ کسی طرح لاہور پہنچ گیا۔ لاہور پہنچ کر کبھی ایک مسجد اور کبھی دوسری مسجد میں ہوتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ چوٹ بڑھتے بڑھتے بہت بڑا زخم بن گیا۔ ’اس دوران مجھے پتا چلا کہ لاہور کے ایک علاقے میں کچھ بنگالی رہتے ہیں۔ میں ان کے پاس گیا جنھوں نے میرا زخم دیکھا تو مجھے ہسپتال لے کر گے اور وہاں پر کئی دن تک میرا علاج چلتا رہا۔ ہسپتال سے ٹھیک ہونے کے بعد میں رائے ونڈ چلا گیا۔ وہاں پر چند دن رکا اور پھر وہاں سے پتوکی پہنچ گیا۔‘

نوسر باز جمع پونجی اور کاغذات لے گئے

قاری عبدالکبیر کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور انڈیا، دونوں ممالک میں میرا خیال رکھا گیا۔ دونوں ممالک میں بہت اچھے لوگ ہیں مگر اس کے ساتھ مجھ غریب کو لوٹا بھی گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں انڈیا میں تھا تو وہاں پر ایک شخص نے مجھے پاکستان پہنچانے کے بہانے مجھ سے تین سو روپے لیے اور غائب ہو گیا۔‘

پاکستان میں بھی انھیں کچھ ایسے ہی تجربات سے گزرنا پڑا۔

قاری عبدالکبیر کہتے ہیں کہ ’جب رائے ونڈ میں کافی دن ہو گئے تو مجھے کہا گیا کہ وہاں اس طرح رکنے کی اجازت نہیں۔ وہاں پر پتوکی کے ایک شخص سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے میری داستان سنی تو مجھے اپنے ساتھ پتوکی لے گئے۔ جہاں پر میں بچوں کو قران پڑھاتا تو کوئی مہینے کے پچاس روپے اور کوئی سو روپے دیتا تھا۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں پتوکی میں مسجد ہی میں ٹھہرتا تھا۔ جہاں پر آدھا کلو ٹوٹا چاول لیتا اور ان کو پکا کر تین، تین دن کھاتا تھا۔ اس دوران میں پیسے جمع کرتا رہتا تھا کہ کسی طرح واپس بنگلہ دیش جانے کا خرچہ بنا لوں۔ ان ہی پیسوں سے میں نے بکری خریدی اور اس کو بڑا کیا اور پھر فروخت کیا۔ ‘

قاری عبدالکبیر کہتے ہیں کہ ’بکری کو فروخت کرکے واپس پتوکی آ رہا تھا کہ راستے میں کسی نے مجھے لوٹ لیا۔ بکری کی فروخت کے پیسوں کے علاوہ میرے پاس بنگلہ دیش کے جو شناختی کاغذات تھے، وہ بھی لٹ گئے۔ یہ مجھ پر بہت بڑا ظلم تھا۔ ‘

قاری کبیر
قاری عبدالکبیر کی پرانی تصویر

قاری عبد الکبیر کہتے ہیں کہ ’اب ایک مرتبہ پھر میں نے پیسے جمع کرنا شروع کردیے تھے۔ بچوں کو قران پڑھانا، امامت کروانا اور پھر بکری وغیرہ بھی خرید لی۔ یہ کوئی شاید بیس سال پہلے کی بات ہے۔ میرے پاس کچھ پیسے جمع ہو گئے تو مجھے ایک شخص ملا جس نے مجھے کہا کہ وہ مجھے بنگلہ دیش پہنچا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی ساری جمع پونجی اس کے حوالے کردی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ وہ چند دن بعد مجھے پتوکی سے لے جائے گا مگر چند دنوں کو کئی سال گزر چکے ہیں۔ وہ شخص پتوکی ہی کا رہائشی ہے اور کئی سال بعد مجھے ملا تو میں نے پوچھا تو کہنے لگا کہ میں نے تو پیسے لیے ہی نہیں تھے کوئی ثبوت، کوئی گواہ۔ اب میرے پاس کہاں ثبوت اور گواہ ہوتا۔‘

قاری عبدالکیبر کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد تو ان کا دل ٹوٹ ہی گیا تھا۔ ’بس تنہائی میں رہنا شروع کردیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل چلتے ہوئے اچانک گر گیا اور ٹانگوں میں فریکچر ہو گیا تھا۔ پتوکی میں میرے کئی شاگرد ہیں۔ ان ہی میں میرے ایک شاگرد قاری عبداللہ اور ان کے دوستوں نے علاج کروایا تھا۔‘

’والدہ نے جو کاغذات سنبھال کر رکھے تھے، وہ سیلاب میں بہہ گئے‘

قاری عبداللہ کہتے ہیں کہ قاری عبدالکبیر صاحب بہت سادہ انسان ہیں اور ان کے پاس اب بھی کوئی فون وغیرہ نہیں۔

’ان کی ٹانگوں میں فریکچر ہوا تو یہ شدید علیل ہو گئے اس موقع پر انھیں دیکھ بھال کی ضرورت تھی تو ان کے ساتھ طویل محفل بھی ہوتی تھی۔ ان ہی محفلوں میں انھوں نے اپنی زندگی کی کہانی سنائی تو دل نے کہا کہ ان کو ان کے خاندان سے ملاقات کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہی سوچ کر میں نے قاری عبدالکیبر صاحب کا سارا واقعہ اور ان کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ پہلے تو کچھ نہ ہوا مگر ان کا واقعہ وائرل ہوتا چلا گیا اور پھر ایک روز ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کا پیغام ملا تھا۔‘

محمودہ اطہر صائمہ کہتی ہیں کہ ’عرصہ دراز ہوا والد کے خاندان سے کوئی رابطہ ہی نہیں۔ یہاں تک کہ ان کی کچھ تصاویر اور کاغذات وغیرہ تو امی نے بہت سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ وہ ایک سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں جب بھی والد کو یاد کر کے روتی تو میرے خاوند مجھے حوصلہ دیتے اور کہتے کہ میرا دل کہتا ہے کہ تمھارے والد زندہ ہیں اور ایک نہ ایک دن وہ ضرور تمھیں ملیں گے۔ یہ کوئی ایسا ہی دن تھا میں بہت خفا تھی کہ میرے خاوند آئے اور انھوں نے سوشل میڈیا پر تصویر دکھائی۔ ‘

محمودہ اطہر صائمہ کہتی ہیں کہ ’تصویر کے ساتھ جو نام اور علاقے لکھے ہوئے تھے وہ میرے والد ہی کے تھے مگر مسئلہ یہ تھا کہ میں نے اپنے والد کو دیکھا ہوا نہیں تھا اور ان کے کوئی تصویر بھی نہیں تھی۔ امی کو تصویر دکھائی تو انھوں نے کہا یہ ہی تمھارے والد ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری ایک عزیزہ خاتون نے والد کی ایک پرانی تصویر جو کسی شادی کی تقریب کے دوران لی گئی تھی محفوظ تھی۔ وہ تصویر انھوں نے مجھے دی اور میں نے قاری عبداللہ کو دی تو والد صاحب نے وہ تصویر دیکھ کر کہا کہ یہ ان ہی کی تصویر ہے۔ ‘

قاری کبیر

’موقع دیں کہ والد کی خدمت کروں‘

محمودہ اطہر صائمہ کہتی ہیں کہ ’جب میں پیدا ہوئی اور ہوش سنبھالا تو میں نے غربت ہی غربت دیکھی تھی۔ میری والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ وہاں سے جو مل جاتا تھا وہ ہم تین بہن بھائی کھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کئی بار تو ہم بھوکے بھی سوئے تھے۔ یقین کریں کہ والد نہ ہو تو دنیا جہنم ہوتی ہے۔ ‘

محمود اطہر صائمہ کہتی ہیں کہ ’جب میں کچھ بڑی ہوئی تو امی نے بتایا کہ والد پاکستان گئے تھے۔ اس کے لیے کچھ عرصہ انڈیا میں رکے تھے۔ ایک دو مرتبہ تو ان کے پیغامات ملے پھر رابطہ کٹ گیا۔‘

محمود اطہر صائمہ کہتی ہیں کہ ’ہم لوگوں کا بچا کچھا کھاتے اور پہنتے تھے۔ جو عذاب اور دکھ ہم نے برداشت کیے ہیں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ دنیا کا کوئی بچہ بھی برداشت نہ کرے۔ ‘

محمودہ اطہر صائمہ کہتی ہیں کہ قاری عبداللہ کے فون کے ذریعے سے اب روزانہ والد صاحب سے بات ہوتی ہے۔

’میرے بہن، بھائی بھی بات کرتے ہیں۔ ہم اب والد صاحب سے ملنے کو تڑپ رہے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اڑ کر پاکستان پہنچ جاؤں مگر میرے خاوند ایک مسجد میں امام ہیں وہ اخرجات ادا کرنے کے قابل نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’والد صاحب کہتے ہیں کہ میرے پاس کوئی کاغذات نہیں۔ میں کس طرح بنگلہ دیش پہنچوں ہمیں اس صورتحال میں سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں اور نہ کریں۔ دنیا تو اب بہت بدل چکی ہے۔‘

’میرے والد بوڑھے اور بیمار ہیں۔ موقع دیں کہ والد کی خدمت کرسکوں۔ اگر ان کو ہم تک پہنچا دیں تو یہ بہت بڑا احسان ہوگا۔ اس میں حکومت پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر اپنا کردار ادا کریں۔ ‘

قاری عبداللہ کہتے ہیں کہ قاری عبدالکبیر نے قابل رحم زندگی گزاری ہے اور اب انھیں مکمل دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔

’ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان والوں کے پاس چلے جائیں۔ ان کے ٹکٹ اور اخراجات کوئی مسئلہ نہیں۔ بس بنگلہ دیش کی حکومت اپنے شہری کو اپنے ملک لے جانے کے انتظامات کر دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *