حقیقی آزادی مارچ پر کتنا خرچہ آ سکتا ہے

حقیقی آزادی مارچ پر کتنا خرچہ آ سکتا ہے

حقیقی آزادی مارچ پر کتنا خرچہ آ سکتا ہے اور اسے کون برداشت کرے گا؟

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پانچ اکتوبر کو لاہور میں کہا تھا کہ ’لانگ مارچ کب ہو گا، کسی کو تاریخ نہیں بتاؤں گا۔ وقت، تاریخ اور جگہ کا فیصلہ مَیں خود کروں گا، بہت سے کارڈز میرے سینے سے لگے رہیں گے۔‘

اُسی روز لاہور میں سابق وزیرِ اعظم نے پارٹی ارکان سے حلف بھی لیا۔ حلف کے مطابق ’کوئی رکن حقیقی آزادی مارچ کے ’جہاد‘ میں شرکت اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔‘ قبل ازیں ایسا ہی حلف پشاور میں بھی لیا گیا تھا۔

مزید براں عمران خان کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کو ہر ضلع سے چھ ہزار لوگوں کو لانگ مارچ میں شریک کرنے کا ٹاسک بھی سونپا گیا۔ اس لانگ مارچ سے متعلق سماجی و سیاسی حلقوں میں سابق وزیرِ اعظم کے بیانات نے کافی تجسس پیدا کیے رکھا، کیونکہ اس کی تاریخ کو انتہائی خفیہ رکھا جا رہا تھا۔

پھر اچانک عمران خان کی جانب سے کہا گیا کہ لانگ مارچ کا اعلان جمعہ کو ہو گا۔ مگر 25 اکتوبر یعنی منگل کے دِن اِن کی جانب سے لانگ مارچ کا یہ کہہ کر اعلان کر دیا گیا کہ ’لانگ مارچ جمعہ سے شروع ہوگا، لاہور کے لبرٹی چوک سے عوام کے ہمراہ براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد پہنچوں گا۔ ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔‘

پیسہ کہاں سے آئے گا، کتنا لگے گا، خرچہ کون برداشت کرے گا؟

یہ بہت ہی اہم سوال ہے کہ پی ٹی آئی کے حقیقی آزادی مارچ کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا اور پیسہ لگے گا کتنا؟

اس ضمن میں بتایا گیا کہ ’اخراجات کو مقامی و مرکزی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر ضلع کے مقامی رہنما اس وقت چاہے وہ ایم این ایز، ایم پی ایز ہیں، یا اگلے الیکشن میں ٹکٹ کے اُمیدوار، شرکا کو لانگ مارچ میں بھی لائیں گے اور اُن سب کے کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست بھی کریں گے۔ یہ مقامی رہنما اپنے ساتھ راشن لے کر آئیں گے۔‘

اس کے علاوہ پی ٹی آئی کا مرکزی دفتر، اسلام آباد میں نقل و حرکت، پیٹرول، ڈیزل، لائٹنگ، ساؤنڈ سسٹم، جنریٹرز،کنٹینر پر اُٹھنے والے اخراجات کو برداشت کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ مجموعی طور پر خرچہ کتنا ہو گا؟

لانگ مارچ

انتظامات کس طرح کے ہوں گے اور طریقہ کار کیا ہو گا؟

یہ لانگ مارچ پی ٹی آئی کے گذشتہ لانگ مارچ سے انتظامات اور تیاریوں کی نسبت مختلف ہو گا۔ اس میں انتظامات نچلی سطح پر تقسیم کیے گئے ہیں۔ اگر 2014 کے دھرنے کو دیکھا جائے تو انتظامات پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی دفترکے پاس تھے۔ لیکن اس بار زیادہ تر ذمہ داری ہر ضلع میں وہاں کے مقامی رہنماؤں میں تقسیم کی گئی ہے۔

انتظامات کی تیاری یونین کونسل سطح تک کی گئی ہے۔ انتظامات کی تیاری میں معاونت کرنے والوں میں سے ایک شخص نے بتایا کہ ’اس خدشے کے پیش نظر کہ حکومت لانگ مارچ میں معاونت کرنے والے افراد اور کمپنیوں کے سامان کو ضبط کر سکتی ہے، اُنھیں گرفتار کر سکتی ہے تو اس کا ازالہ کیسے کیا جائے گا؟ اس خوف اور اندیشے کے پیش نظر ریڈ زون سے شاید دور رہا جائے۔‘

اوکاڑہ سے اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے ممکنہ امیدوار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ ’میرے ذمے 100 افراد کو لانے، ان کے طعام و قیام اور واپسی کی ذمہ داری ہے۔ راستے میں لانگ مارچ کا قافلہ مختلف مقامات پر ٹھہرے گا تو اس دوران بھی ان کے قیام و طعام کے انتظامات میرے ذمے ہیں۔ کارکنان کو لانے والی بسیں فیول کے علاوہ روزانہ 25 ہزار روپے لیں گی۔‘

لیہ سے صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ کے خواہش مند اُمیدوار نے ہمیں بتایا کہ ’25 تاریخ کو عون عباس بپی یہاں آئے تھے، اُنھوں نے لانگ مارچ کے حوالے سے تمام عہدیداران، پی ٹی آئی ایم پی ایز اور ایم این ایز سے میٹنگ کی اور لانگ مارچ سے متعلق ہدایات اور ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔‘

’مختلف لوگوں کے ذمہ کارکنان لانے کی تعداد لگائی گئی ہے۔ مَیں چار بسیں بھر کر لارہا ہوں۔ بسوں کا کرایہ بھی دے دیا ہے۔ یہ کرایہ لگ بھگ ایک لاکھ روزانہ کی بنیاد پر ہے۔‘

اس صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کے اُمیدوار کا کہنا تھا ’کرایہ اس لیے زیادہ ہے کہ یہاں سے لاہور اور پھر اسلام آباد کا سفر زیادہ ہے۔‘

عمران خان

رحیم یار خان سے مقامی صحافی اشفاق احمد نے ہمیں بتایا کہ ’رحیم یار خان کے تحریک انصاف کے ایک ضلعی عہدیدار سے27 اکتوبر کی شام بات ہوئی جو اس وقت عو ن عباس بپی کو ملتان کے لیے الوداع کہنے کے لیے رحیم یار خان انٹر چینج پر موجود تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آج عون عباس بپی نے یہاں اہم ملاقاتیں کیں اور رحیم یار خان ڈسٹرکٹ سے پانچ ہزار لوگوں کو شریک ہونے کا ٹارگٹ دیا گیا ہے۔

اس کے لیے فوری طورپر پچاس بڑی بسوں کا بندوبست کیا جا رہا ہے اور جن بس مالکان سے معاملا ت طے پائے ہیں، وہ ایک لاکھ پینتالیس ہزار کرایہ لے رہے ہیں۔ انھیں پانچ دن کا ایڈوانس کرایہ دیا جا رہا ہے۔ یہ سارا خرچ مقامی قیادت پر تقسیم ہو گا۔

انھوں نے بتایا کہ ’تین دِن بسیں اسلام آباد رُکیں گی، اگر لانگ مارچ کا پڑاؤ اسلام آباد میں زیادہ رہا تو یہ واپس آ جائیں گی۔ جو لوگ یہاں سے شریک ہوں گے، اُن کا کھانا پینا، رہائش کی ذمہ داری مقامی قیادت کے ذمہ ہے۔‘

ننکانہ صاحب سے مقامی صحافی جاوید احمد معاویہ کو، پاکستان تحریکِ انصاف کے ضلعی عہدیدار نے بتایا کہ ’یہاں کے ایم پی ایز کے ذمہ اڑھائی سے تین سو بندے اور ایم این ایز کے ذمہ چار سو سے پانچ سو بندے لانا ہے۔ جو گاڑیاں ہم نے کرایہ پر لی ہیں، وہ فیول کے علاوہ پندرہ ہزار اور پچیس ہزار میں طے ہوئی ہیں کیونکہ پچیس ہزار والی بڑی اور تھوڑی لگژری گاڑیاں ہیں۔‘

لانگ مارچ کا راستہ

’اس کے لیے علاوہ نجی گاڑیاں الگ ہوں گی اور یہ سارے پیسہ ایم پی ایز، ایم این ایز اور ٹکٹ کے خواہشمند ادا کریں گے۔ ہر گاڑی پر ہمارا ایک انچارج ہو گا، جو روزانہ کی بنیاد پر بس مالک کو کرایہ دے گا اور کارکنان کو کھانا پینا اور رہائش مہیا کرے گا۔ اور ہم نے کارکنان کو دس سے پندرہ دِن وہاں قیام سے متعلق آگاہ بھی کر دیا ہے۔‘

شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے صحافی وحید مغل نے چھوٹی وین اور کوسٹر، جن کو لانگ مارچ کے لیے کرایہ پر لیا گیا، اُن میں سے چند گاڑیوں کے ڈرائیور سے بات کی۔

اُن کے مطابق ’چھوٹی وین روزانہ بچت پینتس سو روپے پر طے ہوئے ہوئی ہے، باقی تمام اخراجات پی ٹی آئی کے ذمہ ہوں گے اور کوسٹرز کا کرایہ روزانہ کی بنیاد پر سات ہزار طے ہوا۔ یہ بچت ہے۔ باقی اخراجات اس میں شامل نہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان، اَپر دیر، چارسدہ، صوابی اور لکی مروت کے چند مقامی صحافیوں اور پاکستان تحریک انصاف کی مقامی قیادت نے ہمیں بتایا کہ ان اضلاع سے قافلے براہ راست راولپنڈی پہنچیں گے اور اخراجات مقامی قیادت برداشت کرے گی۔

بعض صحافیوں کا دعوی ہے کہ صوبائی حکومت بھی اس ضمن میں اپنے وسائل اور فنڈ کا مبینہ طور پر استعمال کر رہی ہے۔

عمران خان

ساؤنڈ سسٹم، لائٹنگ، پیٹرو ل و ڈیزل پر کیا اخراجات ہوں گے؟

لانگ مارچ کے انتظامات کرنے والے ایک منتظم کے مطابق ’دو لاکھ لیٹر ڈیزل اور ایک لاکھ لیٹر پٹرول پر مشتمل ٹینکرز عمران خان کے قافلے کے ہمراہ ہوں گے۔ لاہور میں تقریباً 40 ہزار لوگوں کے انتظامات کا ٹارگٹ ہے۔ یہ لوگ کہاں سے آئیں گے؟ ایک تو لاہور کے لوگ ہوں گے، اس کے ساتھ ساتھ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں کے قافلوں کو پہلے لاہور پہنچنے کا کہا گیا ہے۔ یہاں سے مل کر چلیں گے۔‘

’جبکہ فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، میانوالی، اٹک، خوشاب، سرگودھا، جھنگ کے قافلے تین اور چار نومبر کو راولپنڈی پہنچیں گے۔ ان میں سے کچھ قافلے پہلے لاہور بھی جا سکتے ہیں۔‘

ساؤنڈ سسٹم، لائٹنگ اور دیگر انتظامی امور کی ذمہ داری نبھانے والے ایک ذمہ دار شخص نے ہمیں بتایا کہ ’قافلے کے ہمراہ ساؤنڈ سسٹم پر مبنی 30 کے قریب ٹرک ہو سکتے ہیں اور بغیر ایندھن ایک ٹرک کا خرچہ 1 لاکھ چالیس ہزار ہو گا۔‘

’ان ٹرکوں پر ہیوی لائٹس نصب ہوں گی اور ان کے اندر جنریٹرز رکھے ہوں گے۔ ہر گاڑی میں چلنے والا جنریٹر اگر چوبیس گھنٹوں میں دس سے پندرہ گھنٹے چلے تو کئی ہزار لیٹر ڈیزل استعمال ہو گا۔‘

لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لیے حکومت کا لائحہ عمل کیا ہے؟

عمران خان

سات اکتوبر، جمعہ کے روز وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے لیے پلاننگ کی ہے۔ انتظامی اُمور کے علاوہ دو تجاویز ہیں۔ اگر ایک تجویز پر بھی عمل ہو گیا تو اِن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ کیا ہو گیا۔‘

وفاقی وزیرِ داخلہ نے بعد ازاں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس اسلام آباد کی پولیس ہے، اسی طرح رینجرز کی مدد بھی لے جائے گی اور اس جتھے کو روکا جائے گا۔‘

پھر 27 اکتوبر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ’کسی قیمت پر مارچ کو ریڈ زون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو بلایا جائے گا۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *